خیر بخش مری؛ اشتراکیت اور مرغوں کی لڑائی


nawab-khair-bakhsh-marri-interview

مری قبیلے کے سردار کا مسلح بلوچ قومی تحریک کی وکالت کرنا کوئی حادثاتی یا انوکھی بات نہیں خیر بخش دوئم کی زندگی اپنے بزرگوں کی تقلید ہے جن میں اس کا دادا خیر بخش اعظم جس نے انیسویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف بلوچ مزاحمت کی رہنمائی کی اور اس کا باپ مہراللہ خان مری جس نے ۱۹۴۷کے انتقال اقتدار سے قبل کے عشرے میں برطانیہ کے خلاف زیر زمین سیاسی تحریک کی قیادت میں شامل ہیں۔مری بیرونی اقتدار کے خلاف بلوچ جہدوجہد میں اپنے محوری کردار پر نازاں ہیں جبکہ دوسرے بلوچ قبائل جو انہیں اعلیٰ نسل کے احساس برتری کا شکار بتاتے ہیں،کے خیال میں یہ احساس تفاخر حد سے زائد ہے،بلوچوں کا سب سے بڑا اور کثیر تعداد قبیلہ ہونے اور صوبے کے جنوب مشرق میں ۳۳۰۰ مربع میل فوجی لحاظ سے حساس خطے میں آباد ہونے کے باعث مری خود کو بلوچ تحریک کا ہراول دستہ سمجتھے ہیں اور ان کا یہ احساس ۷۷۔۱۹۷۳ کے ٹکراؤ میں اپنے مرکزی کردار کی بنا پر مزید پختہ ہوگیا ہے ۔

حکومت کی جانب اس کے مرتبے اور حیثیت کو نقصان پہنچانے کی پے در پے کوششوں کے باوجود مری کی اپنے قبیلے پر گرفت بہت سخت ہے۔جس سے اسے قومی تحریک کے لئے مظبوط بنیادیں فرائم ہوئی ہیں۔مہراللہ کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کے باعث وہ موروثی مری معاشرے کاغیر متنازعہ قبائلی قائد قرار پایا۔ایک امریکی ماہر عمرانیات نے مری معاشرے میں سردار کی عزت و تکریم کو بہت متاثر کُن قرار دیا ہے اس کے خیال میں بعض اوقات تو یہ لوگ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ سردار ماورائی اوصاف کا مالک لگتا ہے اور اس کو اس قدر عزت بخشی جاتی ہے جو مشرق وسطیٰ میں کسی اور جگہ صرف اولیاء صوفیاء اور مقدس شخصیات کے لیے مختص ہیں۔

پچاس کے ہیٹے میں،دُبلا پتلا،دراز قد،خوش طبع فہم و فراست کا مالک گمراہ کن حد تک حلیم الطبع مری ایک خوش بیان مقرر اور قوم پرست تحریک کا موثر نقیب ہے۔تاہم اسے روز مرہ کی سیاسی سر گرمیوں اور مشکلات میں اکثر اوقات متذبذب اور بعض اوقات سادہ لوح تک پایا گیا ہے وہ بین الاقوامی دانشورانہ زوق کا مالک ہے،(ٹائم نیوز،نیوز ویک،لندن اکنامسٹ، اور ان کے ساتھ مارکسٹ جریدوں کا بھی مطالعہ کرتا ہے۔)۱۹۷۲کی سیاسی جلاوطنی سے قبل دوبارہ امریکہ اور برطانیہ کا دورہ کرچکا ہے تاہم اسکا طرز زندگی ہر لحاظ سے بلوچ ہے وہ روایتی لباس پہنتا ہے حتیٰ کہ کہ بیرون ملک مغربی ممالک میں بھی و ہ مرغوں کی لڑائی کا از حد شوقین ہے جو بلوچوں کا وقت گزارنے کا روایتی مشغلہ ہے۔

تیسرے دنیا کے دوسرے قوم پرستوں کے بر عکس،جن میں نظریاتی راہ عام طور پرکالج کے تعلیم کے دوران ہی متعین ہوجاتی ہے مری نے سیاسی میدان میں تاخیر سے قدم رکھااس کے سابقہ ہم جماعت جو اسے ایچیسن کے زمانے سے جانتے ہیں مری کو آزادی سے قبل ہندوستان کے مخصوص حکمران طبقے کے خوش مزاج،خوش قسمت اور کھلنڈرے نوجوان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔پاکستان میں ہندوستان کا سفیر شنکر باجپائی اسے ۱۹۷۷ کے سفارتی استاقبالئے میں بمشکل پہچاننے میں کامیاب ہوا،باجپائی یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ جس زندہ دل نوجوان کووہ جانتا تھا اب حساس سیاسی مجتہد میں تبدیل ہوچکا ہے جو پانچ سالہ قید تین سالہ ایوب انتظامیہ کے ہاتھوں اور دو سال بھٹو کے تحت کے گہرے نفسیاتی اور جسمانی نشان لئے ہوئے ہے۔

ایوب کے جبراون یونٹ مسلط کرنے کے منصوبے کے مخالفت کرنے والے سرداروں کی گرفتاری اور ۶۰۔۱۹۵۸ کی جنرل ٹکا مخان کی فوجی کاروائی نے مری کو کو تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔روزنامہ جسارت کے سیاسی مبصر مختار حسین نے بتایا کہ یہ بالکل صاف اور سامنے کی بات ہے کہ انہوں نے مری کی خودداری کو مجروح کیااور وہ سے قطحی فراموش نہیں کرے گا۔سندھ یونورسٹی کی ماہر سیاست ڈاکٹر حمید کھوڑو جو پاکستانی لیڈران کے روس کے خیر سگالی کیسفر کے دوران مری سے ملی،بتاتی ہے جب ایوب نے بلوچستان میں فوج بھجوائی تو خیر بخش مری کوئی سیاسی میلان نہ رکھنے والے غیر سیاسی نوجوان سے ایک نظریاتی اشتراک پسند میں تبدیل ہوگیا جو اس غیر یقینی صورتحال جس میں وہ خود کو کھڑا پاتا تھا کے جواب اور حل کی شدت سے تلاش میں تھا۔

ایک بار سیاسی شعور پیدا ہونے کے بعد بلوچ صفوں میں سخت موقف رکھنے والی واضع اور موثر آواز کی صورت میں سامنے آیا ۱۹۶۸ میں اس کی خفیہ امداد ہی نے فراریوں کو چھاپہ مار تحریک کی تشکیل اور مری علاقوں میں تربیتی کیمپوں کا جھال بچھانے کا قابل بنایا،۱۹۶۸ میں جب بزنجو اور مینگل۔ایوب خان سے سمجھوتے کے لئے تیار تھے تو مری نے اس کی شدت سے مخالفت کیااور پیچھے ہٹ گیااور دو سال بعد آخری لمحات میں اپنے شکوت و شبہات کا کھلے عام اظہارر کرتے ہوئے یحیٰ خان سے بہتر شرائط پر معاہدے کے لیے تیار ہوا جس سے بلوچستان میں انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔

مری انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بلوچ نشست پر منتخب ہوا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے مختصر دور حکومت میں اس کا صدر منتخب ہوا۔تاہم اسلام آباد سے معتلق اس کا نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئیاور وہ فراریوں کو پہاڑوں میں بنیادی ڈھانچہ برقرار رکھنے کے لیے خاموشی سے مسلسل کردار ادا کرتا رہا۔ ۱۹۷۳ میں جب بزنجونے بھٹو کے آئین پر دستخط کر دیئے مری نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ اس کی خود مختاری کی شقیں ناکافی اور بے معنی ہیں۔مری کے انکار کے بعد ازاں بلوچ اکچریت کی تائید حاصل ہوئی جب بھٹو نے بیک جنبش قلم صوبائی حکومت توڑی اور مرکزی لیڈران کو گرفتار کرلیا جب جنرل ضیاالحق نے بلوچ قیادت کو رہا کیا تومری بصد ردوکد مینگل اور بزنجو کے ہمر اہ اسلام آباد سے مزاکرات پر تیار ہوا اور کسی بھی سمجھوتے کی بنیاد کے طور پر چند بڑی پاکستانی مراعات پر اصرار کرتا رہا اس کا اسرار تھا کہ بلوچوں کو نئی فونی انتظامیہ کا اس وقت تک حمایت نہیں کرنی چاہیے جب تک ضیاء بلوچستان سے فوج کے مکمل انخلاء اور فوجی معرکوں میں نقصاان اٹھانے والو ں کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے لیے تیار نہ ہوجاتا۔جب ضیا نے یہ تجاویز ماننے سے انکار کردیا تو مری کا موقف ایک بار پھر درست ثابت ہوا اور ایک طرح وہ بلوچ مفادات لے لیے مضبوط نگہبان کی صورت اختیار کرگیا۔

پاکستانی حکمرانوں نے بھی امرکو خفیہ نہیں رکھا کہ بلوچ قیادت میں مری سب سے زیادہ خطرناک ہے اور مری کویقین ہے کہ اسے دوران اسیری ز ہر دینے کی کوشش کی گئی،گو اس کی شہادتیں قرائن پر مبنیاور ناقابل یقیں ہیں اس کے شبہات کا اندازہ اس وقت بھی لگایاجا سکتا تھا جب اس نے ۱۹۷۸ میں (ہرنیا) کے علاج کے لیے اسپتال میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور اس کے بجائے اس نے یہ آپریشن بصد مشکل اور ازحد اخراجات کے بعد قابل اعتبار سرجنوں کے زریعے کوئٹہ میں اپنی رہاہش گاہ پر کرایا۔عطااللہ مینگل نے وضاحت کی کہ اس کو خدشہ تھا کہ ہسپتال جانے کی صورت میں وہ کسی نہ کسی طرح اس کی قتل کرنے کی بندوبست کرلیں گے،

مری کے پاکستانی مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وہ وہ برہم جاگیردار اور نواب ہے جس نے خود غرضانہ زاتی وجوہات کی بناء پر ایوب خان اور اس کے جانشینوں کے جدید اصلاحات کے منصوبوں کی مزاحمت کی۔ون یونٹ کی قیام پر ایوب خان نے تقریبا چالیس قبائلی سرداروں کی حیثیت کو زک پہنچائی اور قبائلی علاقوں کو مرکزی نظام میں لانے کے لئے سرداری نظام کو نا موافق قرار دیا،مری اس سلسلے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ساتی مراعات کی حفاظت کی لئے ایوب خان کی مخالفت نہیں کی یہ دلیل دیتا ہے کہ بہت سے سردار ان مراعات کو نئے نام سے جاری رکھنے کی صورت میں اپنے مرتبے سے دستبردار ہونے اور اسلام آباد کی حکونتوں سے تعاون کے لئے تیار تھے۔

مری مینگل اور دوسرے ترقی پسند سرداروں اس قسم کی سودہ بازی سے انکار کردیااور الزام لگایا کہ اسلام آباد بلوچ خطہ میں میں جدید اصلاحات نہیں لانا چاہتا بلکہ اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اس الزام کے حق میں دلیل کے طور پر مری ایوب خان کے ون یونٹ منصوبے کے زرعی اصلاحات کے دعوے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو چند کٹھ پتلی سرداروں کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد ہوامیں تحلیل ہوگیا اس کے بر عکس مری اور مینگل ا پنے طور پر زرعی اصلاحات کے نفاذ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ بھٹو نے ۱۹۷۳ میں منتخب بلوچ صوبائی حکومت کو بر طرف کیا۔مری نے تو اپنے قبیلے کے سابقہ سرداروں کے بھاری ٹیکس بھی ختم کردیئے تھے اور اس عمل سے وہ مری قبیلے میں مزید مقبول ہوگیاتھا۔

مری کو اپنے قبیلے کے تخفیف شدہ ٹیکسوں کے علاوہ اپنے باغات کی آمدنی بھی وصول ہوتی ہے ۱۹۶۰ کے اوائل میں ان باغات سے وصول ہونے والی آمدنی پچاس ہزار روپے سالانہ لے لگ بھگ تھی لیکن اس کی فراریوں کی امداد کے جواب میں ایوب انتظامیہ نے اس کے زرخیز باغات پر بلڈوزر چلوادیئے تھے اور اسکی جائیداد میں سے کچھ کو آگ لگا دی گئی جب مری قید تھا تو بھٹو انتظامیہ نے اس کی آمدنی کے ذرائع کئی باغات ضبط کر لئے تھے اور اس طرح اس کی آمدن میں مزید تخفیف کر دی گئی اس کی سادہ سی رہاہش گاہ جہاں اگست ۱۹۷۸ میں میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی کچی اینٹوں کے بنے ہوئے کئی چھوٹے چھوٹے کمروں جن میں ایک ایئر کندیشنڈہے پر مشتمل ہے یہ کمرے ایک صحن کے گرد بنائے گئے ہیں اگرچہ یہ دوسری بلوچ رہاہش گاہوں اکی نسبت آرام دہ ہے لیکن شہر میں دوسرے اسلام آباد کے حامی بلوچ کاروباریوں اور پنجابی سرکاری ملازمین کی نسبت کہیں سادہ ہے۔

مرکزی حکومت کے ترقیاتی پروگراموں کی مری علاقے تک رسائی میں سردار کی رکاوٹوں پر بلوچوں میں تنقید کی جاتی ہے۔بزنجو کا نائب محمد عزیز کرد مری کے نقطہ نظر کے جواب میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے”دور حاضر میںیہ موقف کیسے اختیارکیا جاسکتا ہے کہ مری علاقے میں اسکول اور شاہرائیں نہ بنائی جائیں جبکہ آپ خود کوئٹہ کی ایئر کنڈیشنڈ رہاہش گاہوں میں قیام پذیر ہوں”َاسلام آباد کے مامور سابقہ چیف سیکٹری بلوچستان منیر خان بلوچ کے مطابق “قبائلی اقدار کی حفاظت کی مری کی جذباتی خواہش کے پس منظر میں ترقیاتی منصوبوں کے نتیجے میں قیادت کے غیر موثر ہوجانے کا خوف بھی پوشیدہ ہے”ََ۔منیر خان نے ایک بات چیت کا ذکر کیا کہ مری نے سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا “یہ ہمارے لیے مشکلات پیدا کریں گے کیونکہ اگر تم اس طرح رقم خرچ کرنا شروع کردو گے تو ہمارے جیسے قبائلی معاشرے میں شکست و ریخت ہوتی ہے۔ٹھیکدار رقم پھیلائیں گے اور لوگوں کا دماغ خراب ہوجائے گا”۔

مری اپنے دفاع میں کہتا ہے کہ اس نے مری علاقے میں اصلاحات کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ اس نے اس کے پس پشے مرکزی حکومت کے استحصالی اور سیاسی مقاصد کو مدنظر رکھا ہے۔اس سلسلے میں اس نے امو کو(Amoco)اور دوسری غیر ملکی اداروں کی طرف سے مری علاقے میں تیل کی تلاش کی مہم کا ذکر کیا اور اطمینان کا اظہار کیا کہ مری مزاحمت تاحال تیل کی تلاش اور منسلکہ سڑک کی تعمیر روکنے میں کامیاب رہی ہے۔مری نے کہا “بگٹی علاقے میں جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہے۔وہاں گیس دریافت ہوئی جس کا اسی فیصد دوسروں کو دولت مند بنانے کے لیے بلوچستان سے باہر چلاجاتا ہے۔ہم یقیناًاپنے علاقے میں ترقی چاہتے ہیں لیکن یہ اصلاحاتاور ترقی مخصوص انداز اور رفتار سے درکار ہے جو ہمارے علاقے کے حالات کے مطابقت سے ہوں۔ہم جب حکومت میں تھے تو ان سب کاموں کاآغاز کیا گیا تھا لیکن لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ترقی کا کام ہماری گرفت میں ہو۔وہ ہمارے نقطہ نظر کو سمجھے بغیر یہ سب کچھ اپنے طریقہ کار کے مطابق کرنا چاہتے ہیں”اس نے وضاحت کی کہ بلوچستان میں بننے والی شاہراہوں کی اکثریت ہمارے مفاد میں نہیں بنائی گئی بلکہ فوج کی ہم پر اپنی گرفت مظبوط کرنے اور پنجابیوں کو ہمیں لوٹنے کے لیے آسانیاں فرائم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ آیا ترقیاتی کام کئے جائیں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ترقی خودمختاری کے ہمراہ کی جائے یا اس کی عدم موجودگی میں استحصال کا نیا نام اب ترقی رکھا گیا ہے۔

مری نے۱۹۷۷ کی رہائی کے بعد سے عوامی طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی لیکن اس کے پس پردہ سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں۔اگرچہ وہ صحافیوں اور مصنفین سے بہت کم ملتا ہے لیکن وہ مختصر ملاقات کی میری مسلسل درخواستوں کے بعد آخر کار یکم اگست ۱۹۷۸ کو ملاقات کے لیے تیار ہوگیا۔اس کے اطوار نہایت سادہ اور تضع سے عاری تھے اور وہ میرے سوالوں کے جواب سے قبل ہیملٹ کی مانند بے چین ہوجاتا تھا ۔لیکن جوں جوں چائے پینے اور سجی کھانے کے ساتھساتھ ہماری گفتگوآگے بڑھنے لگی تو اس نے بھی آہستہ آہستہ کھانا شروع کیا اور جونہی اس نے اپنے خیالات کا اظہار شروع کیا تو پھر سات گھنٹے تک وقفہ وقفہ سے مسلسل بولتا چلاگیا۔اس گفتگو میں سوچوں کے بہاؤ کا بہت ڈھیلا ڈھالا رابطہ تھا۔اس طرح یہ ملاقات دو سال کے عرصے کی تین تفصیلی ملاقاتوں میں سے پہلی ثابت ہوئی۔

اس کے تجربے کے مطابق”ابتدائی سالوں میں ہماری جہدوجہد قبائلی تھی لیکن ۱۹۴۸ سے سیاسی رُخ اختیار کرتی چلی گئی ۔یہ ایک بچے کی نشونما کی مانند قدرتی عمل تھا جس سے ہم گزرے۔ہمارے لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر مزاحمت نہ کی گئی تو بحیثیت قوم ہمارے تشخص کو تباہ کردیا جائے گا۔”پرنس عبدالکریم کی بغاوت پہلا اظہار تھا۔گو وہ اپنے مقاصد کے بارے میں واضع نہیں تھالیکن وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہوہ ایک جدا ریاست چاہتا ہے۔اس کے جیل جانے سے بلوچ شعور پر تعمیری اثرات مرتب ہوئے اور یہ تب سے اب تک مسلسل نمو پارہا ہے۔عبدالکریم کی رہائی کے بعد”استمان گل” کی تشکیل کے وقت تو پیش نظر ملازمتوں کی حصول کے لییاپنے لوگوں کو تعلیم کی فرائمی جیسے سادہ مقاصد تھے۔ہم قوم پرست تحریک کے آغاز کے لئے ہاتھ پاؤ مار رہے تھے لیکن اس وقت ہمارے مطالبات فقط انسانی حقوق کے تھے اور اس کے لیے ہمیں ہر بار کوئی قیمت ادا کرنا پڑی،جیل،جائیداد کی ضبطی،بلیک لسٹ ہونا،ٹیلی فون سنے جانا،جیلوں میں پھینکوائے جانا،تفتیشی مراحل سے گزرنا یہ سب ایک قدرتی عمل کی بھاری قیمت تھی”۔

“جب نوروز خان پہاڑوں پر گیا تو وہ کیا چاہتا تھا ؟”۔عبدالکریم کی طرح یقیناًمقصد مبہم تھا لیکن یہ بھی بلوچ ریاست کے قیام کی خواہش تھی۔اس نے تکلیفیں جھیلیں اور ان کے”امان اور عام معافی”کے وعدوں پر یقین کیا لیکن کیا نتائج سامنے آئے؟۔جو اس پر بیتی اس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور آنے والی نسلوں پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔وہ پہاڑوں پر چلے گئے اور دوسرے قبائل نے ان کی تقلید بھی کی لیکن مجھے حیرت ہے کہ نوروز خان نے ذہن میں کیا تھا؟۔وہ قوم پرستی کی اصطلاح میں شاید اس کی وضاحت نہیں کر سکتا تھا لیکن بہر حال یہ سب اس کی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کے لیے تھاْاس کے ذہن میں کچھ ضرور تھا کوئی خیال،کوئی تصور،بلوچوں کی آزادی ،کے لئے”۔

مرکی کا اظہار خیال بار بار اس کے ذہنی الجھاؤ کو آشکار کر تا کہ اس کے لئے ادا کی گئی قیمت پا مصرف تھی۔اس نے استعارا سوال کیا کہ “اگر نوروز خان نے ایک انڈے کی خاطر اپنیزندگی گنوائی،جیسا کہ ہوا تو کیا پورے مرغی خانے کا مطالبہ صحیح مصرف نہ تھا۔کس لئے؟صوبائی حقوق کے حصول کے لئے؟جب حرحال میں مصائب کا شکار ہوتا تو سادگی سے کسی بے دقعت چیز کا مطالبہ کیوں کیا جائے؟اب یہ سوال عوام کی جانب سے بار بار پوچھا جا رہا ہے”

عظیم تر بلوچستان کے نظر ئیے کے کشش ابتدامیں اظہار خیال کرتے ہوئے ہچکچائٹ کا اظہار کرتے ہوئے وہ شام کے سائے دھلنے کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے کُھلتا چلا گیا۔اس کا رد عمل واضع اور مفصل جوابات کی صورت میں ظاہر ہونے لگا۔وہ لوٹ پھر کے بار بارایک ہی خیال کی طرف پلٹ آتا تھا کہ”جو کچھ بھی ہو ہمیں تکالیف تو برداشت کرنی ہیں۔قیمت یکساں ادا کرنی ہے سخت مصائب بھی جھیلنے ہونگے چاہے انتخاب کچھ بھی ہوںیہ سب برداشت کرنے کے بعد صرف صوبائی حقوق کی بات کیوں کی جائے؟چائے ہمارے مقاصد چھوٹے ہوں یا بڑے ان کے لیے یکساں مصائب،تکالیف اور قیمت ہوگی۔

مری نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا “یہ اپنے طور پرہی سمجھ لیا گیا ہے کہ بلوچ ضرور کسی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ہم سے امید کی جاتی ہی کہ ہم بلوچوں کو یہاں وہاں بین الاقوامی مثلث کی صورت میں بکھرا ہوا جیسے ہیں ویسے ہی تسلیم کر لیں۔اس میں کیا نقصان ہے کہ بلوچ خود کو یکجاہ کرنا چائیں۔یہ تبدیلی ہوگی اور ضرور ہونی چاہیے۔کیا بلوچ انسان نہیں ہیں؟کیا وہ انسانوں کی کسی نچلی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟اقوام متھدہ کو دیکھیں اس میں عما ن عرب امارات جیسی چھوٹی رکن ریاستوں کو دیکھیں کیا یہ کوئی اچھنبے کی بات ہے کہ ہم صوبائی حقوق سے کیوں مطمئن نہیں ہوتے؟ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دریائے سندھ سے ایران تک پھیلے ہوئے ہم لوگ آزاد مملکت کے طور پر زندہ نہیں رہ سکتے کیا مالدیپ کی بقاء ممکن ہے؟ہم انسان ہیں اور ہمارا چھوٹا ہونا سرف ذرائع کے اعتبار سے ہے۔بین الاقوامیت کا مطلب برابری کی بنیاد پر تمام قوموں کا اتحاد ہے”۔

پاکستان کے ڈھانچے میں بلوچستان کے اطمینان بخش مستقبل کے امکانات کو فوری طور پر رد کرتے ہوئے اس نے کہا کسی وبا کے پھیلنے کی اور بات ہے لیکن ہم پاکستان میں اقلیت ہی رہیں گے اور مسلسل پنجابیوں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں گے۔بنگلہ دیش کے بننے سے قبل جب پنجابی بنگالیوں سے تعداد میں کم تھے تب بھیوہ بنگالیوں کو منصفانہ نمائندگی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے ۔اب جب کہ بنگلہ دیش معرض وجود میں آچکا ہے اور پنجابی اکثریت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔اکثریت کے نام پر اقلیتوں کو تابع رکھنا ان کے لئے ممکن ہے۔اس نے کیال کیا تاحال بہت سے لوگوں نے عظیم تر بلوچستان کے بارے میں نہیں سوچھا تھا لیکن پاکستان سے مسلح تصادم میں ہر بار بلوچوں نے کچھ سیکھا ہی ہے۔جہدوجہد کی ہر اسٹیج پر ایک مخصوص سوچ تیزی سے سامنے آئی ہے اور ایک واضح احساس ابھرا ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں ایک آہستہ روح موت کی کا سامنا ہے۔ماضی میں ہونے والے واقعات و حادچات کے زخموں کے نشانات ابھی باقی ہیں اور انہیں مسکراہٹوں سے نہیں مٹایا جا سکتا۔

اگرچہ وہ بحیثیت ترقی پسند مانا جاتا ہے اور اکثر ماؤ کا بیج لگائے ہوئے ہوتا تھا یا بعد کے سالوں میں لینن کے بیج نے اس کی جگہ لے لی مری کا طر ز فکر مختلف قسم کے اشتراکی نظریات اوربلوچ رسم و رواج کا عجیب و غریب آمیزہ ہے۔محمود عزیز کرد کے مطابق “کبھی وہ بین الاقوامیت کا حامی ہے کبھی قوم پرست ہے اور کبھی صرف مری قبیلے کا رکن ہے”

ہماری کوئٹہ میں ملاقات کے دوران اگرچہ مری نے لینن کا روایتی بیج تو نہیں لگایا ہوا تھا لیکن اس نے بڑی شد و مد سے لینن کی تصانیف میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور وضاحت کی کہ ان پر جوں کا توں عمل کرنااس کے نزدیک ضروری نہیں۔اس نے کہا “میں ان کے علاوہ کسی بھی اور کے جن کی عز ت کرتا ہوں بیج لگا سکتا ہوں مثلا گوتم بدھ جو کچھ میں نے لینن میں دیکھا مجھے کہیں اور نظر نہیں آیا لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ مجھے اس پر یا لینن اس کی تصانیف پر اندھا اعتماد ہے۔مارکسزم ۔لیننزم نے مجھے سیاست کو سمجھنے میں مدد دی ہے لیکن “اشتراکی”ہونا آسان نہیں اور میں نہیں سمجتھا کہ میں اس پر پورا اترتا ہوں۔

مری مارکس اور لینن کے نظریات کو بلوچ معاشرے میں قومی اشتراکیت کے طور پر اپنانے کی بات کرتا ہے اس کا خیال ہے کہ کوئی بھی اگر یہ سمجھتا کے کہ بلوچستان میں مشکلات مغربی طرز کی یہودی ریاست کے قیام کے ذریعے حل ہو سکتی ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔اگر کسی کا خیال ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے کوئی بلوچوں کو “بلوچستان”پلیٹ میں سجا کر پیش کرے گا تو مجھے اس پر شک ہے۔ قانون کے ذریعے یہ سب کچھ ہو تو مجھے اس پر بھی یقین نہیں۔اگر ہمیں اپنے حقوق چاہئیں تو یہ معمول کے مغربی طریقوں سے حاصل نہیں کئے جا سکتے۔میرے خیال میں میں سرمایہ دارانہ قوم پرستی متروک ہو چکی ہے۔آج غریب اپنی آزادی کے لئے زمیندار یا جاگیردار کی رہنمائی تسلیم نہیں کرے گا ۔اسے یقین دلانا ہوگا کہ نئی ریاست میں اسے اقتصادی حقوق ملیں گے جس کا مطلب ہے کہ لینن یا مارکس کی تعلیمات میں کچھ کو اپنانا ہوگا”۔

چند موضوعات جن پر مری کا نقطہ نظر معلوم کرنے میں ناکام رہا۔ان میں سے ایک موضوع اس کے محاذ آزادی کے چھاپہ ماروں سے اس کے تعلقات تھے۔یاد رہے کہ محاذ آزادی کے چھاپہ مار اشتراکی نظریات اور ان کی بلوچ معاشرے میں رائج کرنے میں مری کے ہم خیال ہیں۔اس نے محاذ سے متعلق سوال کو نظر اندا کرتے ہوئے گول مول سا جواب دیا کہ وہ “جبل”کا مستقل قاری نہیں اور اس کا کوئی شمارہ کبھی کبھار ہی دستیاب ہوتا ہے۔

“محاذ کے ترجمان مراد خان کے خیال میں مری تاحال “اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ موجودہ صورتحال میں محاذ کا حصہ بن سکے لیکن وہ قوت مزاحمت اور مزاحمت کی ہمت رکھنے والوں کی عزت کرتا ہے۔وہ ہمارے طریقہ کار کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ عوام با خبر ہوں کہ یہ جنگ کیوں لڑی جارہی ہے۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب عوام ماضی کی طرح بلوچ روایات کے مطابق عزت و وقار کے لیے میدان میں آئیں”میرا زاتی خیال ہے کہ مری کے محاذ کے ساتھ اس کے پیش رو “فراریوں”کی طرح قریبی روابط ہیں لیکن چونکہ ۱۹۷۸ میں وہ پاکستان میں رہاہش پذیر تھا اس لیے وہ خود کو ایک مسلح متشدد گروہوں سے وابستہ کرکے حکومت کی طرف سے انتقامی کاروائی کے غیر ضروری خطرے سے دوچار نہیں ہونا چاہتا تھا۔مری واضح طور پر اور کھلم کھلا تسلیم کرتا ہے کہ بلوچ حقوق کے لئے ایک مسلح جہدوجہد ضروری ہے۔

مری کو امید ہے کہ بلوچستانبڑی طاقتوں کی سیاسی کشمکش سے آزاد رہ سکتا ہے اس کے مطابق ہم اپنے آپ کو کسی منڈلی میں پھنسانا نہیں چاہتے ۔نظریات دوسروں تک پہنچائے جا سکتے ہیں وہ انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہوتے ہیں اور کسی نظریئے کی تقلید لے لیے ضروری نہیں کہ کسی ایک یا دوسرے طاقت کی اطاعت کی جائے اگر کوئی کسی ایک یا دوسرے طاقت کا حامی ہوجاتا ہے تو اسے اپنی کسی چیز سے ہاتھ دھونا پڑھتے ہیں”بلوچ خواہشات کے لیے امریکہ کے امدردانہ روئیے کی اپیل کرتے ہوئے مری کہتا ہے کہ ضیاء انتظامیہ یا اس کے پیش رووں کی امریکی سر پرستی بھی “ہمارے لیے مسئلہ رہی ہے۔عوام سوچتے ہیں کہ امریکہ پنجابیوں کی امداد کرتا ہے اور ہمارا متبادل دوسرا کیمپ ہی رہ جاتا ہے”

گفتگو کے دوران مری نے کئی مرتبہ بڑی طاقتوں کا جہدوجہد میں اُلجھی ہوئی چھوٹی قومیتوں کی غیر محفوظ حیثیت کا ذکر کیا ایک پہلو کا بہت پریشانی سے زکر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر آپ اس بلاک میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو آپ پوری طرح اس کے شکنجے میں کسے جاتے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے یہی طریق دنیا ہے”پھر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا لوگوں کو کٹھ پتلیاں نہیں سمجھنا چایئے۔ہم شریک ہونا چاہتے ہیں ہمیں محافظوں کی ضرورت نہیں ہمیں خود فریبی میں بھی مبتلا نہیں ہونا چائیے اور ایک غلامی سے دوسری میں نہیں جانا چاہیے یا کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم توجیہی بنیادوں پر یہ یا وہ غلامی قبول کرتے ہیں لوگ اکثر کہتے ہیں کہ وہ “پرانی برائی کی جگہ نئی برائی”قبوک کرکے دیکھیں گے۔

کوئٹہ میں اپریل ۱۹۷۸ کی ہماری ملاقات کے وقت کابل کا کمیونسٹ انقلاب چار ماہ پرانا ہوچکا تھا ۔نئی انتظامیہ کی “بلوچ سوچ”میں دلچسپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مری نے متفکرانہ انداز میں کہا ۔”اس سے قبل کہ ہم بلوچ اپنے فیصلے خود کرنا سیکھیں دوسروں کی مرضی سے ان کی پسند کے مطابق ہماری قسمت کا فیصلہ کر دیاجائے گا ۔قابل افسوس مقام ہے کہ اس سے قبل کہ ہم جنگ شروع کریں ہماری آزادی ہم سے چھین لی جائے گی۔یہ ہمارا امتحان ہوگا۔میر ہزار خان کے چھاپہ ماروں کو کابل کی جانب سے پناہ فراہم کرنے پر اسکا ردعمل تھا کہ بلوچ اس کے نتیجے میں خود کو کابل کا زیر احسان سمجھتے ہیں۔خطرہ ہے کہ افغان ہمارے فیصلے اور ہمارے مستقبل کے متعلق سوچ و بچار خود کرنے لگیں گے”۔اس کے خیال میں اگر افغانستانروس سے آزاد رہ سکتا ہے تو بلوچوں کے لیے قابل سے نزدیکی روابط شاید خطرناک ثابت نہ ہوں۔شاید ہم کسی کے پاس رہن ہوئے بغیر کسی اشتراکیت کو اپنا سکیںیا شاید یہ رہن اتنا زیادہ نہیں کہ ہم اسے ادا نہ کر سکیں۔

گیارہ مارچ ۱۹۸۰میں دوسری ملاقات تک وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے لندن جا چکا تھا روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کی کابل میں آزادی قومی اشتراکی انتظامیہ کے قیامکی امیدوں پر پانی پھر چکا تھا۔میں نے اسے بلوچوں کے انتخاب مطلق پر نظرچانی کے دوران بر گشتہ مزاج پایا۔اس کا سوال تھا کہ ہم کیا کریںیا افغان کیا کریں بلکہ چھوٹی قومیں کر ہی کیا سکتی ہیں؟انہیں مدد کی ضرورت تو ہوتی ہے جب مدد قبول کر لیا جا ئے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے گھیراؤ تنگ کردیا ہے۔وہ آپ پر قبضہ کر لیتے ہیں چھوٹی قومیں اسفنج کی مانند ہیں ایک وقت آتا ہے کہ مذید مائع قبول نہیں کرسکتا اور ایک بڑے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔یہ ہیصورت چھوٹی قوموں کی ہے۔وہ کسی ایسے بڑے جسم کا حصہ بن جاتی ہیں جسے وہ قابو میں رکھنے کے قابل نہیں ہوتیں۔چاہے روس ہو یا امریکہ آپ کسی بڑی طاقت سے امداد لینے کے بعد بھی اپنا تشخص بر قرار رکھ سکتے ہیں؟یہ نا ممکن ہے!اگر ہم اپنی جہدوجہد کے لیے ان سے ہتھیار لیتے ہیں تو بہنے والا خون ہمارا ہی ہیکیا ہماری تحریک کے لیے بہنے والا خون ان کے ہتھیاروں سے زیادہ قیمتی نہیں؟بڑی طاقتیں ہمیں ہماری موجودہ حالت میں امداد فراہم کیوں نہیں کرتیں؟چھوٹی قوموں کے لیے کسی مخصوص معیار پر پورا اترنا کیوں ضروری ہے؟

اس نے بتایا افغانستان پر روسی قبضے کے باوجود”بلوچ عوام سمجھتے ہیں کہ میں پنجابیوں کو کیوں پسند نہیں کرتا اس لئے روس کو اپنے علاقے میں حتیٰ کہ افغانستان پر روسی قبضے کے بعد بھی انہوں نے کہا کہ”بلوچ عوام سوچتے ہیں کہ میں میں پنجابیوں کو پسند نہیں کرتا لہذا روسیوں کو آنے دو”لیکن جن لوگوں پر زیادہ زمہ داریاں ہیں انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر روسی آگئے تو ہمیں کیا حصہ ملے گا؟پھر وہ غصے میں مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگا”ایسا کیوں ہے کہ امریکہ ہمیشہ قائم شدہ ڈھانچے کے تحت کام کرتا ہے؟اگر امریکہ پنجابیوں کو اسلحہ فراہم کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اپنا ہاتھ دوسری سپر پاور کے سامنے پھیلانا ہوگا۔”جنوری ۱۹۸۱ میں مری نے کابل کا مختصر دورہ کیا جہاں انہوں نے میر ہزار اور لبریشن فرنٹ کے دوسرے رہنماؤن سے جو جنوبی افغانستان میں خیمہ زن تھے کہ عکاوی افغان حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔لندن واپسی پر امہوں نے فرنٹ سے اپنے روابط کو خفیہ نہیں رکھا۔انہوں نے وضاھت کی کہ ان کا دورہ بعض معمولی مسائل کے سلسلے میں تھا جو گوریلوں اور کارمل حکومت کے درمیان تعلقات میں پیدا ہوگئے تھے ۔انہوں نے افغانستان کی جانب سے گوریلوں کو پناہ گہ فراہم کرنے پر اطہار تشکر کیا۔انہوں نے کہا کہ لبریشن فرنٹ نے کبھی بھی باقاعدہ طور پر نہ تو خلق کمیونسٹ دھڑے کی حمایت اعلان کیا جو ۱۹۷۸ میں بر سر اقتدار آئی تھی اور نہ ہی کارمل کی پرچمی حکومت کی حمایت کا۔اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ کابل میں دو ہفتے قیام کو دوران انہوں نے سویت حکام سے ملاقات کیوں نہیں کی تو انہوں نے جواب دیا۔شاید وہ ہماری مزاحمت کو گلط سمجھتے ہیں۔

بعض اوقات بلوچ رہنما ایسے ایسے غیر جانبدار اور آزاد بلوچستان کی بات کرتے رہے ہیں جو نہ تو ماسکو کو فوجی اڈے فراہم کرے گا اور نہ ہی واشنگٹن کو،جب ان سے پوچھا گیا کہ بلوچ کیونکر ایسی درمیانی راہ اختیار کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی گوریلا جہدوجہد کے لئے بیک وقت دونوں سُپر پاورز اور دوسرے ممالک سے مدد حاصل کر سکیں؟تو مری نے بلا کسی تردد یہ کہا کہ “اگر یہ بات کبھی حقیقت پسندی بھی تھی تو اب نہیں ہے۔آپ یا تو ایک کیمپ میں ہیں یا دوسرے میں۔سوال یہ ہے کہ کس کی امداد حاصل کر سکتے ہیں،کس کی امداد خوود کو مکمل طور پر بیچے بغیر قبول کرسکتے ہیں”؟

جب میں نے تجویز پیش کی کہ سپر پاور کے جوتے تلے آزادی حاصل کرنے کے مقابلے میں پاکستان سے تصفیہ قابل ترجیح ہے تو مختصر وقفے کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ “اگر پنجابی یا پاکستانی حکومت بلوغت اور پختگی کے انداز میں حقیقت پسندی اور اس تفہیم کے ساتھ کہ بات چیت کے لئے تیار ہے تو پھر ہم بھی تصفیے کے لئے ہمیشہ کی طرح تیار ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات پربات چیت کرکے وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

انہیں ہمیں قومی حیثیت دینے کے بارے میں مزاکرات کے لیے تیار ہونا چاہئے اور ایسے تعلقات کے بارے میں جو ہماری اس حیثیت کی بنیاد پر ہوں لیکن مجھے اعتراف کرنا چائیے کہ مجھے ایسا کوئی پنجابی یاد نہیں پڑتا جو ان خطوط پر بات کرتا ہو”

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s