
نواب خیر بخش مری28 نومبر1929کو بلوچستان کے علاقے کاہان میں مری قبیلے کے سردار مہراللہ خان مری کے ہاں پیدا ہوئے ا ور چار سال کے تھے کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیااور وہ گھر کے ملازماؤں اور سوتیلی ماؤں کے ہاتھوں میں پلے۔
مری قبیلہ بلوچ قبائل کے ان قبیلوں میں سے ایک ہے جس نے انگریز سامراج کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا اور خود سردار خیر بخش مری کے دادا سردار خیر بخش جن کے نام پر ان کا نام تھا سامراج دشمن اور آزادی پسند سردار تھے ۔
انگریز مری قبیلے کو غلامی پر راضی رہنے اور اپنے سامراجی عزائم کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکنے کے لیے سردار خیر بخش مری کویتیم ہوجانے کے بعد اپنی سر پرستی میں لے گیا اور ان کو چیفس کالج لاہور میں داخل کرایا گیا جہاں انکی تربیت دوسرے سرداروں کی طرح کی گئی اور سردار خیر بخش مری ابتدائی طور پر انگریز کی تعلیم و تربیت سے ان کی منشاء کے مطابق ڈھل گئے۔
پاکستان بن گیا اور ایوب خان کا زمانہ آگیا اور یہ وہ دؤر تھا جب غیر سیاسی سردار نواب خیر بخش مری سیاسی بن گیا، اور اس نے مزاحمتی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا ۔ایوب خان کے دؤر سے لیکر بھٹو کے دور تک نواب خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی میں رہے جو کہ اس زمانے میں پنجابی،سرائیکی،پختون،بلوچ،بنگالی،سندھی ترقی پسند سوشلسٹ قوم پرستوں کی پارٹی تھی اور یہ پاکستان کو کثیر القومی وفاق بنانے کی حامی تھی اور پاکستان کے پانچوں صوبوں میں صوبائی خودمختاری جبکہ وفاق کے پاس دفاع،خارجہ،کرنسی اور مواصلات کے شعبے رکھنے کے حامی تھی ۔
لیکن نواب خیر بخش مری کے خیالات میں تبدیلی کا عمل اس وقت شروع ہوا جب 70کے بعد ملک دو لخت ہوگیا اوربھٹو نے معاہدہ عمرانی کے تحت بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں نیپ کی حکومت کی تشکیل کو تسلیم کیا اور صوبوں کو خودمختاری دینے کا وعدہ کیا ،لیکن بھٹو صاحب دن بدن پاکستانی ریاست کی ملٹری اور سویلین نوکر شاہی کی منشا کے مطابق بلوچوں سے زیادتیاں کرتے رہے اور ان کی سربرائی میں بھی بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی کا سا سلوک کیا جاتا رہااور پھر نیپ کی حکومت کو زبردستی ختم کر دیا گیا ۔جس سے نواب خیر بخش مری فیڈرل سیاست کے تصور سے ہی باغی ہوگئے اور انہوں نے اپنے قبیلے کے ساتھ ریاست سے بغاوت کردی اور ان کو ریاستی فوجی آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے جبر کی وجہ سے افغانستان ہجرت کرنا پڑی ۔جہاں ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوچکی تھی۔
نواب خیر بخش مری ریاستی جبر،قید و بند کی صعوبتوں اور بلوچ قوم پر ہونے والے مسلسل مظالم اور اس دوران اپنے مطالعے پر اس نتیجہ پر پہنچے کہ بلوچ قوم کا حقیقی ایشو حصہ داری نہیں بلکہ آزادی ہے۔ اور ان کے خیال میں پاکستان کوئی آزاد ریاست نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی نام کا کوئی قوم موجود ہے بلکہ پاکستان ایک نیو کالونیل اسٹیٹ ہے جس پر پنجابی ،مہاجر ملکر حکمرانی کر رہے ہیں ۔اور پاکستان کے نام پر پنجابی، مہاجر حکمران طبقے بلوچستان کو ایک مفتوحہ مقبوضہ کالونی خیال کرتے ہیں اور بلوچ قوم کے لوگوں کو اپنی رعایا سمجھتے ہیں اور اس خطے کی لوٹ کسوٹ ان کا اول و آخر مقصد ہے۔
روزنامہ آساپ کوئٹہ دسمبر 2003میں مطلب مینگل نے ان کے ایک اسٹڈی سرکل کی رپورٹ دی جس میں نواب خیر بخش مری کہتے ہیں” پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ فوج اور اقتصادیات ریاست کے دو ستون ہیں ۔یہ کیسی مبہم بات ہے،فوج اور اقتصادیات کس کے مقابلے میں ہیں؟ہمارے مقابلے میں؟ چین،امریکہ، ایران اور افغانستان کے مقابلے میں ؟فوج تو ملک کی سلامتی کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ریاست کا ستون۔ریاست کا ستون تو صحیح فکر ،انسانی برابری عزت و انصاف ہوا کرتے ہیں،بنیادی طور پر یہ سوسائٹی جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کو قوم کہنا ٹھیک نہیں ہے”۔
نواب خیر بخش مری کہتے ہیں کہ” بالا دست کے منہ سے ترقی کا لفظ صرف لوٹ کسوٹ کے لیے نکلتا ہے ترقی اور میگا پروجیکٹس کے نام پر بلوچ قوم کو زیرِ تسلط رکھنے اورلوٹ کھسوٹ جاری رکھنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ رومیوں کی اصطلاح میں کالونیل ازم کا مطلب ہی مقبوضہ علاقوں میں نوآبادیاں قائم کرکےٍ مقامی آبادی کو بے دخل کرنا اور ان کے وسائل پر قبضہ جمانا ہے۔رومن امپائر، انگریزی قبضہ گیر اور دیگر سامراجی سرمایہ دار ملکوں نے کیا ماضی میں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ترقی کا نام لیکر اقوام کو نہیں لوٹا تھا؟یا آج امریکہ اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اقوام کی تہذیب،کلچر و روایات میں رکاوٹیں ڈال کر ان کی تجارت پر قابض نہیں ہو رہی ہیں؟ان کی اقتصادیات کو بگاڑ کر استحصالی زرائع سے انہیں افلاس سے دوچار نہیں کیا جارہا ہے؟آج بلوچ کے خلاف بھی وہی حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔بلوچ کو اس نہج پر پہنچا یا جا رہا ہے کہ وہ عالمی سرمایہ داروں کا دست نگر ہونے کے ساتھ مکمل طور پر پنجابی پر انحصارکرنے پر مجبور ہو۔ان کے ترقیاتی منصوبوں میں عالمی سرمایہ دار اور پنجابی کا مفاد پوشیدہ ہے۔پنجابی کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کے لیے عالمی سرمایہ داری کی چاپلوسی کر رہا ہے۔اور اس کی حرکتیں اس کی تاریخی کردار کے عین مطابق ہیں”۔
نواب خیر بخش مری نے روزنامہ توار کوئٹہ کو ایک انٹریو دیتے ہوئے کہا تھا کہ”پنجابی عام آدمی پر بھی ظلم ہوتا ہے،۔وہاں پر چوہدری تھانیدار اُس کو دبا کر رکھتے ہیں۔لیکن پنجابی عوام اپنی مظلومیت سے آزادی حاصل کرنے کے بجائے ظالم پنجابی حکمران کلاس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور پنجابیوں کی ظلم کی چکی میں پسنے والے بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ تو ہم بلوچ پنجابیوں کے جاگنے اور ان کو ساتھ ملانے کے لیے اپنی آزادی کی تحریک اور حقوق کی جنگ کو موخر نہیں کر سکتے اور پنجابیوں کی ساتھ آنے کی آس میں ان کے ساتھ خود بھی ڈوبنا نہیں چاہتے” ۔
نواب خیر بخش مری نے کہا تھا کہ “پنجاب سے جو بھی آتا ہے وہ حصہ دینے کی بات کرتا ہے گویا ہم کوئی خیرات ان سے مانگ رہے ہیں اور وہ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ بلوچ قوم کا علاقہ ان کی کالونی اور اس کے وسائل پر وہ قابض ہیں اور ان کو یہ قبضہ چھوڑنا ہوگا،بلوچ دھی(خیراتی روٹی)لینے والے نہیں ہیں”۔
نواب خیر بخش مری ایک روشن ضمیر اور تجربہ کار مفکر و سیاست دان تھے،اور یہ انکی چشم بصیرت تھی کہ انہوں نے غوث بخش بزنجو کے بیٹے اور ان کے سیاسی وارث کہلانے والے حئی ،مالک و دیگر مڈل کلاس بلوچوں کی ایک نئی ابھرتی ہوئی موقع پرست سیاست کے بارے میں ٹھیک ٹھیک پیشن گوئی کی تھی،ان سے پوچھا گیا تھا کہ نیشنل پارٹی پارلیمانی وفاق پرست سیاست کے اندر رہتے ہوئے بلوچوں کی آزادی و خود مختاری کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے تو وہ اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ “جو بھی نوآبادیاتی آقاؤں اور عالمی سرمایہ داری کے تنخواہ داروں کے ساتھ رہ کر آزادی و خودمختاری کی بات کرتا ہے اس سے بڑا جھوٹا اور موقع پرست کوئی اور نہیں ہے”۔ نواب خیر بخش مری پنجابی مڈل کلاس کے بارے میں کبھی خوش فہمی کا شکار نہیں رہے اور ان کی کہی باتیں ان کی زندگی میں ٹھیک ثابت ہوتی رہیں،آج پنجابی مڈل کلاس میں بھاری اکثریت بلوچ قوم کی استحصال اور ان کی محکومیت کو بڑھانے والے نام نہاد ترقی کے ریاستی ماڈل کی حامی ہے،اور وہ اس ماڈل کے راستے میں آنے والے بلوچ قوم کو زبردست فوجی قوت سے کچلنے کے عمل کی حمایت کرتی ہے۔جیسا کہ پنجاب کے صحافی،سیاسی رہنماء اور عوام کی اکثریت بلوچستان پر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے مظالم پر خاموش نظر آتی ہے اور اگر پنجاب بلوچستان کے نہتے عوام پر جیٹ طیارے ،ہلکا اور بھاری توپ خانہ بھی استعمال کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان کی فوج،اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس کی سرمایہ دار کلاس اور اس کی مڈل کلاس پرتیں سب کی سب بلوچ قوم کی محکومی اور اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر متفق ہیں۔اور پنجاب میں بہت کم اور وہ بھی انتہائی کمزور آوازیں ہیں جو ترقی کے اس نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ہمیں سنائی دیتی ہیں۔
نواب خیر بخش مری نے بلوچ قوم کو قبائلی،ریجنل نیشنل ازم،پارلیمانی موقع پرستانہ بلوچ مڈل کلاسی پالیٹکس اور درباری اسلام آ باد کے غلام سرداروں کی سیاست کے مقابلے میں ایک حقیقی سوشلسٹ ،سامراج دشمن بلوچ قومی سیاست اور مزاحمت کا راستہ دکھایااور یہی ایک کارنامہ ان کو بلوچ قوم کی نظروں میں ہیرو بنانے کے لیے کافی ہے۔
نواب خیر بخش مری کو میں اپنے سیاسی گروہ کے طور پر بھی لیتا ہوں کہ ان کی نظریاتی تعلیم میں بلوچ قوم کے لیے اسباق پنہاں نہیں ہیں بلکہ سرائیکی قوم کے ایک فرد ہونے کے ناطے میرے لیے بھی واضع لائن آف ایکشن موجود ہے۔
سرائیکی وسیب کے باسی بھی ابھی تک پنجاب اور اس کی فوج ،نوکر شاہی اور اسکی سیاسی اشرافیہ کے درمیان باہمی اتحاد اور ان کے کالونیل اور ڈویلپمنٹل آئیڈیالوجیکل تصوارات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے اور اس خطے میں کوئی ایک ایسا قد آور لیڈر موجود نہیں جو آزادی اور مکمل قومی آزادی کی تحریک کی بات کرے بلکہ یہاں سرائیکی وسیب کے عوام کو غلامی اور محکومی سے آزاد کرانے کی بات کرنے والے حصہ داری سے آگے نہیں بڑھتے اور وہ کالونیل حاکموں سے اپنی قانونی اور آئینی رعایا ہونے کا سٹیٹس مانگتے ہیں۔ مطلب ان کو صوبے کا درجہ دیا جائے۔ بس ان کو نواب خیر بخش مری سے سبق لینا چائیے اور بلوچ قوم کی تاریخ پڑھ لینی چائیے۔