بیرونی امداد پر نہیں، اپنے زورَ بازو پربھروسہ کرنا پڑے گا: نواب خیر بخش مری


بیرونی امداد نہیں،اپنے زورِبازو پہ بھروسہ ہے!
کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کہ آزاد بلوچستان کے مالک امیروں کے بچے نہ بن بھیٹیں

اِنٹرویو : وسیم بلوچ
حوالہ : ہفت روزہ مزدور جہدوجہد
اشاعت : 18تا 24مارچ2010

nawab-marri-1ھفت روزہ مزدور جہدوجہد بزرگ بلوچ رہنما خیر بخش مری کا یہ خصوصی انٹریوشائع کررہا جسے ہمارے نمائندہ وسیم بلوچ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر لیا۔ شاید اردو زبان میں اتنی تفصیل سے کسی بلوچ رہنما کا انٹریو پہلی بار شائع ہورہا ہے۔ ہفت روزہ مزدور جہدوجہد نواب خیر بخش مری کا یہ انٹریو بلوچستان کے بارے میں ایک بحث کے آغاز کے طور پر شائع کر رہا ہے۔ خیر بخش مری نے کھل کر بلوچستان کی آزادی کی بات کی ہے۔ مزدور جہدوجہد کاان کی تمام باتوں سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ امید ہے یہ انٹریوبلوچستان کی موجودہ صورتحال میں ایک بڑے سیاسی رجحان کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

بلوچستان کا متقبل آپ کو کیا دکھائی دیتا ہے؟

ہماری کامیابی یقینی ہے۔ جلد یا بدیربلوچستان آزاد ہوگا۔ بہت جلدتو بہرحال نہیں لیکن جہدوجہد تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔

15جنوری2010ء کے بعد بلوچستان میں ایک اپ رائزنگ کی کیفیت دیکھی جارہی ہے۔آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟

محسوس تو کئی چیزیں کررہاں ہوں۔ نہیں جانتا کہاں تک محدود رکھوں۔ جو ہم چاہتے ہیں، وہ دینا نہیں چاہتے۔ وہ روکنے کے لیے مار نے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں ماننا پڑرہا ہے کہ انسر جنسی (اندرونی بغاوت)ہے۔ ایسے ہر واقعے سے وہاں (بلوچستان میں) حدت بڑھتی ہے۔  بلوچوں میں گرمائش بڑھتی ہے تو ان کا جبربھی بڑھتا جاتا ہے۔ وہ چُن چُن کر بھی مار رہے ہیں اور اندھا دھند ماس کلنگ سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ علی مدد اور صدام جیسے نہتے بچوں پر گولیاں چلائیں گے تو بلوچوں سے کس ردعمل کی توقع رکھتے ہیں؟ یہ جنگی جرائم کررہے ہیں۔ کوسوو میں شایدسات آٹھ ہزار لوگ قتل کیے گئے تھے اوردنیا میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ایسے واقعات سے ناپاکوں نے یہ سبق سیکھا کہ غائب کرکے مانتے ہی نہیں کہتے ہیں کہ خود غائب ہوگئے، دبئی یا افغانستان چلے گئے۔ آٹھ ہزارہیں یا دس ہزا ریا اس سے بھی زیادہ ۔ خدا جانے کتنوں کو مار چکے ہیں۔ غائب کرو، ختم کردواور شکست دو یہ ان کی پالیسی ہے۔ مجھے ڈر ہے یہ (بلوچوں کو)ختم کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ غائب کئے گئے اکثر بلوچ اب زندہ نہیں رہے؟

مجھے شک ہے کہ وہ جو غائب کیے گئے ہیں مار ہی ڈالے گئے ہیں کیوں کہ ان کے حوالہ سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ راولپنڈی کے نواحی علاقوں میں اُنہیں دفن کیا گیاہے؟

کچھ ایسے قبرستانوں کا ذکر ہوا تو ہے۔ کسے کہاں دفن کیا مجھے معلوم نہیں۔ بنگلہ دیش کے واقعات سے انہوں نے یہ سبق سیکھا کہ اب غائب کرتے ہیں ہلہ نہیں بولتے، سلیکٹیوایکشن(Selective Action) کرتے ہیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غائب کئے جانے کے اس عمل سے بلوچ قوم اپنے بہترین لوگوں سے محروم ہوتی جارہی ہے؟

آگ لگتی ہے تو خشک و تر،پھل دار اور بے پھل سب ہی کو نگلتی ہے۔ کہیں شعور کم ہے لیکن وہ بھی مر رہے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ خوف و ہراس پھیلا کر وہ لوگوں کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاید سمجھتے ہیں کہ ایسے کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن نہیں ہوں گے۔

جبرا غائب کئے گئے بلوچوں کے حوالہ سے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم اور ایشین ہیومن رائٹس کمیشن گمشدہ بلوچوں کے معاملہ کو جنگی جرائم کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے معتلقہ اداروں میں لے جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔کیا آپ ایسی کسی کوشش کی حمایت کریں گے؟

اگر کوئی انسانی حقوق کے ادارے ان واقعات کو کسی عالمی فورم پر لے کرجائیں تو انصاف کی توقع توکم ہی ہے لیکن شائد اس سے رائے عامہ کو بیدار کرنے میں کچھ مدد میں ملے۔ عوام کی رائے بھی دادا گیروں کے قبضے میں ہے۔ عراق جنگ کے دوران مغرب میں لاکھوں کے جلوس نکلے لیکن تبائی کو نہیں روک سکے۔ امید کم ہے لیکن ایسی کوششیں کسی حد تک بلوچوں کے مقدمہ کی تبلیغ کا زریعہ ہوسکتی ہیں۔

1973ء اور آج! کیا نمایاں فرق ہے؟

پہلے یہ تحریک محدود تھی، اب ہر طرف پھیلاؤ ہے، بہت وسیع علاقوں میں۔ اب بہت وسعت ہے اس تحریک میں۔ ہر طرح کے لوگ اس میں ہیں۔ جذباتی بھی، منطقی بھی، چھوٹوں اور بڑوں کی جیسی تربیت اب ہورہی ہے پہلے نہیں تھی۔ اب چھوٹا بچہ بھی فوج یا پولیس کی گاڑی کو دیکھتا ہے تو پتھر اٹھاتا ہے۔ پہلے تو کوئٹہ میں بھی اس کا اثر چند علاقوں میں تک محدود تھا اب جہاں کہیں بھی بلوچ ہے وہاں انسر جنسی کے اثرات ہیں۔ امریکہ، انگلیڈ اور دیگر ملکوں میں بیٹھے بلوچ اب بہت لکھتے ہیں اور بولتے ہیں۔

مکران کے علاقوں میں کیا تبدیلی ہے؟

سارے مکران میں اب لوگ متحرک ہیں۔ پہلے وہ سنتے تھے، اب وہ عمل میں بھی آگے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ جانتے ہیں کہ آزادی کس قدر ضروری ہے۔

کیا آپ بلوچستان میں کوئی عوامی تحریک بنتی دیکھ رہے ہیں؟

اُبھار تو بڑا ہے، راء میٹریل (raw material) تو دستیاب ہے۔ اس کو تنظیم میں لاکر ٹھوس مزاحمتی تحریک کی شکل دینا بلوچ تنظیموں کے شعوراور ان کی محنت پر منحصر ہے۔ ابھی شاید اتنی شاندار تنظیمی قوت ان میں نہیں کہ سب کو جزب کرسکیں لیکن میں پُر امید ہوں۔ پہلے کے مقابلے میں بڑا فرق ہے۔ پہلے شاید ہمارے تاریخی بیس اسکول اور کالج تھے۔ ہم نے ان پر بھی پوری توجہ نہیں دی تھی۔ قبیلے اور فرقہ کے تعصبات میں اُلجھے رہے۔ اب ہر جگہ اور بلوچ معاشرے کے ہر شعبے میں ہمارے مراکز بڑھتے جارہے ہیں۔

آپ کسی حد تک سیاسی قیادت کا خلا محسوس نہیں کرتے؟

میں چی گویرا کی جملے یہاں دہراؤں گا۔ اس نے کہا تھا “انقلاب ردِانقلاب کو زیادہ تیزی سے تیار کرتا ہے”…. اُس کے پاس وسائل ہیں، فوج ہے۔ ہمارے پاس آزادی کے مجاھد ہیں اور اُن کی حمایت اور ہمدردی کرنے والے عوام ہیں لیکن ہم پر پابندیاں ہیں، جبر ہے اور اُس کوآزادی حاصل ہے۔ اس کے پاس قید کرنے غائب کرنے اور قتل کرنے کا لائسنس ہے۔  ہمارے لوگ انڈر گراؤنڈہیں۔ لیکن اُس کی طاقت ہی اُس کی کمزوری ہے۔ اُس کی خونخواری ہی اُس کی موت ہے۔ وہ مقام آئے گا جب ہم زیادہ طاقت میں ہوں گے۔ ضرورت تو سخت ہے۔ اگر جلد نہیں تو پھر ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اگر تحریک جلد اپنے نکتہء عرو ج پر نہ پہنچی تو شاید بلوچ قوم اقلیت میں بدل جائے گی اور ان کا قومی وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک انٹریو میں میں نے بلوچوں سے کہا تھا “اگر ہم مزید پندرہ سال غلام رہے تو ہماری شناخت مٹ جائے گی۔”

مزید غفلت کی تو نقصان ہوگا۔ ہمیں سوچنا پڑے گا اور آزادی کے لیے مرنا پڑے گا۔ دھڑا دھڑ سروں کے نذرانے پیش کرنا ہوں گے۔ اگر دیر کی تو پھر بلوچ کا وجود بلوچستان میں ناپید ہوجائے گا۔ کتنے رہ جائیں گے بلوچستان میں، گوادر میں کتنے ہوں گے؟… بچنا ہے تو مرنا ہوگا۔ اگر نہیں مرے تو ہم بھکاری ہوں گے۔ جھاڑو دینے والے، موٹر دھونے والے، ہوٹلوں میں برتن دھونے والے ہوں گے اور ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے والا کوئی اور ہوگا۔

بلوچ قوم میں جو اَپ رائزنگ (ابھار) ہے اسے منظم کرنے کے لیے بلوچ قیادت کو تفکر کرکے، متحرک ہوکر بڑا اتحاد بنانا ہوگا۔ دشمن بہر حال مضبوط ہے۔ اُن کا پراپیگنڈہ موثر ہے۔ ہمیں سخت جہدوجہد کرنا ہوگی۔ بعض محض تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ اُن کی تعلیم گمراہ کن ہے۔ یہ تو تعلیم ہے ہی نہیں۔ مسخ کی ہوئی تاریخ ہے اس تعلیم سے بلوچوں کو نقصان ہی ہوگافائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ ان پڑھ بلوچ اگر ریاضی نہیں جانتا تو بھی تاریخ ضرور جانتا ہے۔ ابدالی، بابراور جناح ہماری شناخت نہیں یہاں تک کہ مسلمان بھی ہماری شناخت نہیں۔ ہم پہلے بلوچ ہیں خواہ مسلمان ہوں یا ہندوہوں یا عیسائی۔ آہ! نام بلوچستان ہے لیکن بلوچ کے اختیار میں نہیں۔ ہمیں اختیار نہیں کہ اپنے بچوں کو اپنی زبان، تاریخ، تمدن، تہذیب، ثقافت کی تعلیم دیں اور اپنے وسائل کو خود اپنے لیے برو ئے کار لائیں۔

آزاد بلوچستان میں آپ کیسا نظام چاہتے ہیں؟

(جہدوجہدمیں)غریبوں کے بچے مر رہے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ڈرلگتا ہے کہ مالک امیروں کی بچے نہ بن بیٹھیں۔ عوام کا بلوچستان ہو۔جہاں سب حقیقتا برابر ہوں۔ قانونی طور پر بھی اور عملا بھی۔ تعلیم، وسائل اور مواقع پر سب کا برابر کا حق ہو۔ دیگر معاملات میں بھی سب کا یکساں حق ہو۔

قبائل اور ریاست کے مابین وسائل کی تقسیم کیسی ہو؟

(قبائل کے ) حقوق دائمی نہ ہوں۔ بلوچ وسائل تمام بلوچوں کے تصرف میں ہوں۔ (وسائل پر معتلقہ زمین پر آباد اور روایتی مالک قبائل کے حق کی روایت) میرے خیال میں یہ صحیح نہیں لیکن اس کے لیے سکھانے پڑھانے کی خاصی ضرورت پڑے گی۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ بلوچستان کے وسائل عملا چین کے تصرف میں ہیں۔ کیا آپ اس کو امپیریلزم نہیں سمجھتے؟

گذشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے آغاز میں چین میں ہُونائزیشن (ہُن نسل کا زندگی کے تمام شعبوں میں غلبہ) کی جارہی تھی اور امپیریلیسٹ (سامراجی) رویہ آرہا تھا۔ مجھے شک ہے کہ چین سامراج بن رہا ہے اور کالونائز کرنے کی ذہنیت پر چل رہاہے۔

کیا بلوچ مدد کے لیے امریکہ پر انحصار کر سکتے ہیں؟

دنیا میں ابھی تک ایسا دیکھا نہیں گیا.

لیکن آج عراق میں کردوں کے حالات یکسر بدل چکے ہیں ہیں؟

امریکا کا کتنا دخل ہے اور کردوں کا تاریخی جہد وجہد کتنی ہے!… ہوسکتا ہے کہ کوئی بغضِ معاویہ میں مدد کرنا چاہے لیکن ہم بہر حال خود اپنے ہی زورِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں۔

کیا آپ پناہ کے لیے افغانستان پر ہمیشہ انحصار کر سکتے ہیں؟

افغانستان میں ہماری پناہ کا سلسلہ کب تک چلے گا، کہہ نہیں سکتا… یہ تاریخی سلسلہ ہے۔ ایران سے ہمیں ایسا رویہ نہیں ملا۔ انگریز جب بلوچستان پر قابض تھے تو میرے دادا افغان بادشاہ سے مدد لینے کے لیے افغانستان گئے تھے۔ کچھ ہی ایسے چھوٹے موٹے فرار پہلے بھی چلتے رہے۔ ایک رسم سی بن گئی تھی 1970ء کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں لوگ وہاں گئے تھے۔

بلوچستان کے دیگر قبائل کے لوگ کچھ عرصہ بعد واپس آگئے، مری وہیں رہے۔ روس کے (افغانستان میں) آنے سے خیال تھا کہ وہ مہتاجوں کا رہبر ہے۔ دنیا میں انصاف کا وکالت کرنے والا ہے لیکن اس نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ آپ (افغان کمیونسٹ )اچھے میزبان بنے لیکن کامریڈز نہیں بنے۔ میں صحیح جواب نہیں دے سکتا کہ آیا ہم میں کمی تھی یا ان میں۔

کیا یہ قیاس کرنا صحیح نہیں کہ بلوچوں کو بہترین موقع 1971میں ملا تھا؟

1971ء کے بعدموقع اچھا تھا۔ اُس وقت ہم میں نہ شعور تھا نہ ہی تحریک اتنی مضبوط تھی… اپنے بارے میں کہ سکتا ہوں کہ مجھ میں شاید تب شعور کی کمی تھی۔ موقع موجود تھا ہم اسے استعمال نہ کرسکے۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قوم پرست تحریک کی تشکیل میں نمایاں کردار رہا ۔ بالاچ نے بی ایس او کو موجودہ تحریک کے لیے نئے سرے سے منظم کیا۔ آنے والے سالوں میں آپ بی ایس او کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

میں کہ نہیں سکتا کہ وہ واقعی وین گارڈ (قیادت کرنے والے) ہیں۔ اُن کے کام اور اُن کی محنت پر دارومدار ہے۔ بی ایس او کی شکل میں،  انڈر گراؤنڈ کی شکل میں اور دیگر تنظیموں کی شکل میں… ادغاموں کی ضرورت ہے۔

بی این ایم کے کام پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟

ہر ایک کے ذہن میں سوال تو ہے کہ کس کے قدم مستقبل میں زیادہ آگے بڑھتے ہیں۔

بی این ایف؟

ہاں یہ موثر سیاسی فرنٹ بن سکتا ہے۔ آزادی کے لیے بلوچوں کو حتمی طور پر مسلح کوشش پرہی زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ یہ ملٹی ڈائی منشنل (ہمہ جہتی) اور ملٹی لیئر (کئی سطحوں پر) جہد و جہد ہونی چاہیے۔ سیاسی تحریک سیاسی قیادت کا محترک اور فعال ہونا ضروری ہے لیکن میں زیادہ اہمیت مسلح کوشش کو دیتا ہوں۔

مسلح گروپ؟

بگٹی، اللہ نذر اور مری اکھٹے رہیں، متحد رہیں، مل کر چلیں۔ خوبیاں خامیاں اپنی جگہ۔ زیادہ سے زیادہ رابطہ اور عملی تعاون رکھیں، اتحاد سے رہیں۔ اگر ایک ہوجائیں تو بہترین ہوگا۔ ایک ہوکر رہنا ہی کامیابی کی کلید ہے۔

بلوچستان پیکج کی حمایت کرنے والوں کا مستقبل میں کیا مقام ہوگا؟

جو غدار کا مقام ہوتا ہے وہی ہو گا۔

کیا اس پیکج نے آپ کا کام آسان نہیں کردیا؟

انہوں نے تو ہمارا کام آسان کرنے کے لیے یہ ( پیکج) نہیں دیا تھا۔ اب بلوچ کے شعورکی سطح پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے دیکھتا ہے۔ میں بغاوت کا لفظ کم استعمال کرتا ہوں۔ انسرجنسی (کا لفظ استعمال کرتا ہوں) یہ پیکج کاؤنٹر انسر جنسی سٹریٹجی ہے۔ لوگوں کو لالچ دے کر توڑنے کی کوشش ہے۔ کوشش کی گئی کہ جو بلوچ پہلے آزاد بلوچستان کا نعرہ مارتا ہے وہ شاید لالچ میں آجائے۔ آزادی کے خیال پر مرتکز ہوتی ہوئی سوچوں کو منتشر کرنے کے لیے یہ پیکج دیا گیا ۔ بعض لوگوں کو یہ سوچنے پر مائل کیا گیا کہ جب وہ دے رہے ہیں تو آزادی کے لیے لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ کسی کو کرسی اور کسی کو پیسے کا لالچ دیتا تو رہے گا۔ کسی کو آپس کی لڑائیوں میں اُلجھانے اور کسی کو مدد دینے کی کوشش کرے گا ۔ جیسے عالی، طلال اور براہمدغ کے معاملات میں کوششیں کیں۔ اپنی سازشیں تو جاری رکھے گا جب تک شکست نہیں کھاتا۔

بلوچستان پیکج سامنے آنے سے پہلے پاکستان کے بعض ترقی پسند گروپوں نے بلوچستان کو”صوبائی خودمختاری” دینے کی دستخطی مہم چلائی۔ اس عمل کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

پاکستان کے ترقی پسندوں کے خیالات… وہ نو آبادیاتی پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہیں… وہ پاکستان کو مضبوط کرکے بلوچستان، پختون قوم اور سندھ کی لوٹ کسھوٹ جاری رکھنے میں مدد گاربنتے ہیں… بلوچوں کی زمین (رقبہ) پاکستان سے زیادہ ہے۔ گو کہ یہ ایران، فرنٹیئر، پنجاب اور سندھ میں بکھری ہوئی ہے۔ بلوچوں کی تاریخ، زبان، ثقافت،تہذیب اور روایات حتیٰ کہ فیونا فلورا تک پاکستان سے جدا ہے۔ قدرتی وسائل اور سمندری وسائل بے پناہ ہیں۔ جو قوم ہر طرح سے اُن کے ملک سے بڑی ہے اُسے محض کالونی کی حیثیت دینے کی بات کرتے ہیں۔ خواہ وہ اسے صوبہ کہیں، یہ عملا کالونی ہے۔ ہم انہیں انسانی حقوق کے ماننے والے کیونکر کہیں!… اور جو کہتے ہیں آپ ریفرنڈم کرائیں،بلوچ سے پوچھو تو بھلا کون بلوچ ریفرنڈم میں کہے گا میں آزاد ہونا نہیں چاہتا۔ ایران، سندھ، پنجاب اور افغانستان اور کہاں کہاں بکھرے ہوئے بلوچوں سے آپ کیسے ریفرنڈم میں رائے لیں گے!… وہ (بلوچ) کہتا ہے میں مالک ہوں۔ تو یہ کہتے ہیں “یہ ٹکڑا تھوڈا سا دوں گا” دادا گیری ہے کہ تم چاؤ بھی تو نہیں لے سکتے۔ مجھے (بلوچ کو) کہتے ہیں، “تم بونے ہو” میں بونا نہیں ہوں۔ میں صحت مندہوں اور مکمل انسان ہوں۔

کیا یہ عجیب نہیں کہ پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی تاریخ کا مالک بلوچ قوم محکوم رہے اور محض ڈیڑھ صدی پر محیط نوآبادیاتی تاریخ کا حامل گروہ حاکم؟

انگریز پانچ ہزار میل دور سے آکر قابض ہواکیونکہ میں مری اور بگٹی کے جھگڑے میں اُلجھا رہا۔ اسی وجہ سے اکھٹے نہ ہوئے اور پیچھے رہ گئے۔ بہت پیچھے رہ گئے۔ 1970 میں اگر ہم سب جاگتے تو آج آزاد ہوتے۔ اُس وقت کی غفلت کی سزا اب تک بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم اُٹھتے تو شاید بنگلہ دیش والے بھی اتنی مار نہ کھاتھے۔ پھر شاید وہ بھی کہتا اصل پاکستان میں ہوں۔ لیکن میرا مسئلہ تو اس وقت شعور کی کمی تھا۔ میرا مسئلہ تو… ایسا نہ ہو کہ بگٹی مجھ پر حاوی ہوجائے۔ انگریز آئے یا پنجاب غلام بنالے میری برابری تو بگٹی سے ہے… ابھی تک یہی خامیاں ہیں۔ “میری عورت کا مسئلہ ہے۔ میری بیوی کا کفالت کون کرے گا”… سب عورتوں اور مردوں کی قسمت داؤ پر لگی ہے لیکن اجتماہی فکر اب بھی کم ہے۔ باقی دنیا میں بھی ایسا ہے لیکن ہم میں یہ مرض خاصا زیادہ ہے۔ ذاتی اور قبائلی دونوں سطح پراجتماعی فکر کی کمی ہے۔

بلوچ تاریخ کو میڈیا کی عدم موافقت کا ہمیشہ سامنا رہا۔کیا اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا رہا؟

بلوچ میڈیا بہت تھوڑا اور محدود اثر کا حامل ہے۔ وہ بھی ڈر کر اور دب کر بات کرتا ہے۔ میڈیا کی مدد ملنا بہت مشکل ہے جبکہ قابض کوئی اور ہے۔ اگر کوئی آزاد اخبار نکلے گا تو قابض اُسے بند کردیں گے۔ جب بھی کوئی اشاعتی ادارہ سر اُٹھائے گا کُچلاجائے گا۔ بلوچ قوم کو متبادل ذرائع پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جو آزادی چاہتے ہیں، حقائق کو عام آدمی تک پہنچانے کے لکھیں۔ راتوں کو جاکر تقسیم کریں، پریشانی اُٹھائیں، تکلیف اُٹھائیں لیکن یہی راستہ ہے۔

پڑھے بلوچ خصوصا جلا وطن انٹر نیٹ کے ذریعے رسائی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں؟

انٹرنیٹ موثر ذریعہ ہے لیکن اس کی رسائی محدود ہے۔چروائے تو اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔

تو کیا پرنٹ میڈیا کی عدم موجودگی میں انٹر نیٹ پر انحصار سے جاننے اور نہ جاننے والوں میں تقسیم بڑھ نہیں رہی؟

تقسیم کچھ بڑھی ہے لیکن بعض پہلوؤں سے فائدہ بھی بہت ہورہا ہے۔ جاننے والے کاغذ قلم کے استعمال پر بھی توجہ دیں تو اچھا ہے۔ لندن میں میڈیا بہت اسٹرانگ ہے لیکن برٹش حکومت نے میڈیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر اپنی پالیسی جاری رکھی۔ لکھنے کا میڈیا، بولنے کا میڈیا، جلسے جلوس ہو زریعے کے اثرات ہیں لیکن طاقتور اِن سے رکھتا نہیں ہے۔ غاضب کو روکنے کے لیے دارومدار طاقت پر ہی ہوگا۔ بندوق کی طاقت پر ہی ہوگا۔ بندوق کی طاقت کے مقابل باقی زرائع بھی بندوق کی مدد سے استعمال کرنا پڑیں گے۔

خان آف قلات نے بلوچستان کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف جیسے فورمز پر لے جانے کی بات کی اور پھر… ان کے نقطہء نظر پر آپ کی کیا رائے ہے؟

وہ مستقل مجاز نہیں ہیں۔ قومی رہبری کے لیے زیادہ مستحکم اپروچ درکار ہے۔

حیر بیار مری؟

میں کچھ نہیں کہوں گا۔

بالاچ نے واپس آنے کے بعد تھوڑے وقت میں بہت سے کام کئے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر بالاچ زندہ رہتا تو چیزیں مختلف ہوتیں؟

زندہ رہتا، تکلیف میں رہتا، بھوکا رہتا، کام کرتا رہتا۔ شاید یہ باپ کی حیثیت سے میرے احساسات ہیں… قومی غرض کی لیے اُس کا مزید رہنا شاید اچھا ہوتا۔ ایک بالاچ نہیں ہزاروں کی تعداد میں باپوں کے بیٹے اور بیٹوں کے باپ مارے گئے۔ بلوچوں میں ایک کہاوت ہے، میں اُس کی ماں کا شوہر نہیں لیکن وہ میری اولاد ہے۔ میری ان اولادوں کا دکھ اگر ایک منٹ مجھے ستائے گا تو یہ شاید پانچ منٹ ستائے گا۔دونوں کا دُکھ برابر کہوں توشاید جھوٹ ہوگا۔ لیکن یہ میرے شعور کی کمی ہے، جذباتیت نہیں ہے… لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ میرا بیٹا اگر چھت ہے تو دیواریں یہ دوسرے بلوچ ہیں… رسم ہے کہ گاؤں میں کوئی مرجائے تو روٹی نہیں پکاتے، لیکن اگر اپنا کوئی مرجائے تو روٹی پکانے کو دل چاہتا ہی نہیں… بالاچ کا مرنا دکھ کی بات، لیکن ضرورت تھی قوم کو اُس کی، کام آگیا۔ زندہ رہتا مزید کام کرتا تومجھے بہت خوشی ہوتی۔ تھوڑی روٹی ملتی، مشقت میں رہتا تو کندن ہوتا جاتا، دمکتا جاتا…

بالاچ کی فکر پھلتی ہوئی دکھا ئی دے رہی ہے… پختونوں کی کہاوت ہے، “مر گیا تو بھول گئے” لیکن اُسے بھولنا مشکل ہے۔ چی گویرا زندہ رہتا تو معلوم نہیں کتنے انقلاب لاتا۔ بالاچ کو بھی چی گویرا سمجھا جاتا ہے… بالاچ اُس پہاڑ سے گزرا، اُس گھاٹی سے گزرا، یہاں بیٹھا، یہ بات کہی… آہ!… اس کے ساتھی… دور دراز کے ساتھی ایک رشتے کی زنجیر میں جڑے تھے۔ ایک کڑی کٹ گئی۔ نقصان تو ہے۔پھرتا رہتا، تبلیغ کرتا، باتیں کرتا تو اُس کے اثرات مذید پھیلتے… ہاتھی کی تو کہتے ہیں کہ مر کر قیمت بڑھ جاتی ہے لیکن انسان ہاتھی نہیں ہوتے۔ نواب اکبر خان بگٹی، غلام محمد اور ہزاروں گمنام… کتنی صلاحیتیں تھیں، کیا کچھ کر سکتے تھے… صدو ایک مکران کا کمانڈر تھ ا(جو بعد) میں مارا گیا۔ میں نے پوچھا صدو سے، “میرے صدو نے کیا کہا؟” اس نے بتا یا، “بالوں میں رنگ نکلا ہوا تھا، کپڑے میلے تھے۔” بالاچ کہتا چلتا ہے… کبھی کبھی انتڑیوں کو ہاتھ پڑتا ہے۔ “تکلیف تو ہوتی ہے… لوگ بتاتے ہیں کسی آدمی کا بیٹا لڑائی میں مارا گیا۔ لوگ فاتحہ کے لیے گئے۔ وہ بیٹھا تھا لیکن غم کی حالت ظاہر نہیں تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا، اسے تو کچھ پرواہ نہیں، بے حس آدمی ہے۔ وہ اُٹھا، پیشاپ کرکے آیا، پھر طنز کرنے والے سے بولا، “جاکر پیشاپ دیکھو” پیشاپ میں خون تھا باہر سے نارمل تھا، قہقے مارتا تھا… جس کے دو بیٹے مارے گئے، اسے دکھ تو ہے، روایت کے مطابق کہتے ہیں، “وہ عزت کی موت مرا” لیکن اندر تو دُکھ ہے۔ وہ یہاں سے نکلنے کے بعد نہ جانے کتنے سینکڑوں ہزاروں میل پھرتا رہا۔ زندہ رہتا زندوں کے سات کام کرتا رہتا۔ جلد نہ مرتا، میرے بعد مرتا تو اچھا ہوتا۔ زیادہ لوگوں کو محترک کرتا، خوشی کا دن زیادہ نزدیک آجاتا…

مری، بلوچ سب اس عزت میں شریک ہیں۔ “وہ”ظالم ہیں۔ ظالموں کو قابو میں رکھنا مشکل ہے۔ انسانیت ان کے سامنے کوئی قیمت رکھتی… ایک بالاچ نہیں ہزاروں مریوں کے بچے جن کو میں جانتا نہیں، دیکھا نہیں، وہ اب نہیں ہیں۔ ان سب کا دکھ ہم اپنے اندر لیے پھرتے ہیں۔ یہ دُکھ بلوچ قوم کے اندر ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو عزابوں میں مبتلاء کیے گئے اور پھر مارے گئے، کئی اپاہج اور کئی آنکھوں سے محروم کیے گئے۔ غلام محمد اور رسول بخش کو کیسے مارا کہ پہچانے تک نہیں گئے۔ کس عذاب سے انہیں گزارا گیا اور کس آگ سے عذاب دیاشیطانوں نے، یہ سب چیزیں بھولنے کی نہیں… آزادی ملے تو خوشی کی بات ہے لیکن جو ہر گھر میں دُکھ ہے وہ تو رہے گا…  ہلمند میں بیٹھ کر ہم ہنستے تھے، روتے تھے، باتیں کرتے تھے اور روٹی کھاتے تھے۔ اب وہ گیا تو اسے کون لاسکتا ہے۔ اسے مرنا نہیں چاہیے تھا۔ کسی کو بھی مرنا نہیں چاہیے تھا۔ لیکن مرے بغیر آزادی نہیں۔ آزادی کے لیے موت قبول ہے۔ وہ (بالاچ) تو گیا اب جو اس کے راستے پر ہیں وہ بھی مریں تو قبول۔ آزادی ضروری ہے۔ ابھی تو اولادیں گئیں، نہ لڑے اور نہ مرے تو پوری قوم مٹ جائے گی۔

ایک تکلیف دہ حوالہ میری بہن زرینہ کا بھی ہے؟

زرینہ میری بیٹی ہوتی تو معلوم نہیں کتنی تکلیت ہوتی۔ اس کے ماں باپ پرمعلوم نہیں کیا گزرتی ہے جب وہ یاد کرتے ہیں ان کی مظلوم بیٹی اپنی خو شی کے لیے نہیں بلکہ ظالموں کی زبردستی کے سبب بے لباس ہوتی ہے۔ عورت کے معاملے میں میں قبائلی حساس ہوتے ہیں۔ ایک زرینہ مری نہیں بہت بیٹیاں ہیں جن کے نام میں نہیں جانتا، جو نا پاکوں نے اُٹھالیں… (چند لمحے خاموشی کے بعد) شاید ایک مرتبہ جذباتیت میں میں نے کہا تھاکہ سور کے ساتھ گزارا ہو سکتا ہے پنجاب کے ساتھ نہیں۔ مجھے کبھی محسوس ہوتا ہے شاید سارے پنجابی ایسے نہ ہوں اور میں نے نازیبہ کلام کیا ہو لیکن جب دیکھتا ہوں کہ زرینہ سے لیکر درجنوں بیٹیوں اور ہزاروں بلوچوں کے ساتھ جو ہورہا ہے تو سوچتا ہوں شاید جذباتیت میں کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا۔ پنجابیوں کے ساتھ ہر گز گزارا نہیں ہوسکتا۔ پنجابیوں نے ہمیں غلام رکھا۔ اُسے ہماری سب چیزوں سے نفرت ہے۔ زرینہ کے ساتھ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ پوری بلوچ قوم کواذیت دینے کے لیے، دہشت زدہ کرنے کے لیے اور نفسیاتی شکست دینے کے لیے کررہے ہیں لیکن وہ ہماری نفسیات کا غلط اندازہ کرتے ہیں۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ زیادہ بے جگری سے جہدوجہد کریں گے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے، ہمیں پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ آنے والا وقت ہمارے لیے کیسا ہوگا۔ ہم نے غفلت کی، کوتاہی کی اور نتیجہ غلامی!

میں بگٹی اور مری کے چکر سے نہیں نکلا۔ ہمارے لوگ اب بھی سادہ ہیں۔ کئی چیزیں ہمارے لوگوں کے لیے روز مرہ کا معمول ہیں۔ ہمیں وہ نارمل باتیں لگتی ہیں لیکن ان سے نقصان ہوا ہے۔ بلوچوں کی ایک کہاوت ہے کہ پیسہ تو سود خور کے پاس بھی ہے لیکن مرد کی خوبیاں… سرمایہ دارانہ دور میں پیسہ ایک اہم وصف ہے۔ پیسہ ہوتو لوگ خود کو کامیاب سمجھتے ہیں۔ پاکستانی استعمار کی تعلیم انسانی وصف پیدا نہیں کرتی لیکن ذہنوں میں لالچ گھسیڑ دیتی ہے۔ یہ محض روزگار کا لالچ دیتے ہیں… وہ آزادی مانگتا ہے۔ یہ کہتے ہیں سڑک، اسکول، ہسپتال، بجلی، نوکریاں دیں گے۔ رنڈی خانہ بنا رکھا ہے۔ قیمتیں لگاتے ہیں بلوچ کی۔ امریکہ کا ہاتھ پنجابی کی پشت پر نہ ہوتا تو شاید ہم آزاد ہوچکے ہوتے۔ تلافی صرف بے پناہ جہدوجہد سے ممکن ہے۔ تھکے بغیر مسلل جہدوجہد سے۔ امریکہ کا ہاتھ پنجاب کی پشت پر رہا ورنہ ہم آزاد ہو چکے ہوتے۔

پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل مسلل کم ہو رہا ۔جبکہ چین کا عمل دخل بڑھ رہا ہے کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟

پنجاب پہلے صرف ایک امپیریلسٹ کا رکھیل تھا اب دو امپیریلسٹوں کے ساتھ سونے والی رنڈی بن چکا ہے۔

آزادی کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے؟

ہماری خواہش ہے کہ ہم آزاد ہوں ان کی خواہش ہمیں فریب دیکر آزادی کی جہدوجہد سے ہٹا کر شکست دینے کی ہے۔ انصاف دینے کا ان کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پنجاب اتنا بیزار ہوجائے کہ خود جان چھڑانے کی سوچے۔جب ہم سمجھیں گے یہ واقعی جان چھڑانا چاہتے ہیں تب ہم بات چیت پر سوچیں گے۔ ٹروجن ہارس سے محتاط رہو۔ ان کے پیکج، تحائف بھی ٹروجن ہارس ہیں۔ جب پنجاب کی مائیں یہ کہنے پر مجبور ہوں گی، “پتر فوج وچ بھرتی نہ ہو” تب ہم بات چیت پر سوچیں گے۔

جو بلوچ قوم پرست بات چیت کا عندیہ دیتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

یہ ہمیں سراب دکھاتے ہیں۔ جو قوم پرست کہتے ہیں اور سراب کے پیچھے جانے کا عندیہ دیتے ہیں وہ دھوکے میں نہیں آرہے بلکہ مکار ہیں اور منافق ہیں۔ وہ سراب کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں لیکن مکاری کررہے ہیں۔ جہدوجہد کی قیمت دینے پر تیار نہیں۔ چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم پر آنے والی مصیبت اُن پر نہ آئے۔ وہ بچ جائیں۔

آپ بالاچ گورگیج کے مداح ہیں؟

بالاچ گورگیج نے اپنے دشمنوں کے خلاف جس حکمت اور دلیری کے ساتھ گوریلا جنگ لڑی وہ مجھے بہت انسپائر کرتا ہے۔ میں نے اپنے بالاچ کا نام اُسی کی نام پر رکھا۔کسی حد تک شش و پنج میں بھی رہا کہ باالاچ نام کو میرے قبیلہ میں لوگ شاید پسند نہ کریں لیکن میں نے اپنے آئیڈیل کے نام پر رکھا۔گزن کا نام رکھا تو بعض لوگ کہتے تھے کہ کسی بہت بڑی شخصیت کے نام پر نام مت رکھو۔ بچے کی شخصیت پر بھاری پڑے گا۔

بالاچ نے کبھی بچپن میں آپ لوگوں کو پریشان کیا؟

بالاچ نے بچپن میں کھبی تنگ نہیں کیا۔ جوانی میں بھی کھبی پریشان نہیں کیا۔ وہ بیٹا نہیں دوست تھا، میرا قریبی ساتھی تھا، ہم سفر اور کامریڈ تھا۔ ماسکو میں رہا تو چھٹیوں میں آتا رہتا تھا۔ لندن میں کچھ سال دور رہا۔ کچھ زیادہ نہیں… تم نے کرید کرید کر میری کمزوریوں کو جگایا۔ مری قبیلہ میں ہمارے گھرانے کا تعلق باولان زئی شاخ سے ہے۔ ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ چلتے ہیں تو زمین کی طرف نظر رہتی ہے جیسے کہ کچھ کویا ہوا ہو۔ دیگر بلوچ سر اُٹھا کر چلتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سر ہمیشہ اونچا رکھیں۔ سب باولان زئی تو ایسے نہیں لیکن ہمارا گھرانہ کمزور ہے۔بالاچ کی باتیں کرتے کرتے شاید میں اپنا کمزوریاں چھپا نہیں سکتا۔ وہ جب تحریک میں آگے بڑھا تو خود کہا کرتا تھا؛ “جس راہ پر میں چلا ہوں اس راہ سے واپسی نہیں ہوتی۔ میرے پاس ون وے ٹکٹ ہے۔”

ہمارے رشتہ دار بچے اسے یاد کرکے ایک گیت سنتے ہیں ریشماں کا… (یاد کرنے کی کوشش )

…. لمبی جدائی؟ …
ہاں یہی لمبی جدائی!

آج کل پھر یہ حالت ہے کہ کوئی ایک بچہ مرتا ہے تو سارا بوجھ پھر سے آپڑتا ہے… ہر موت پر ساری یادیں پھر سے تازہ ہوجاتی ہیں… (یہ کہتے ہوئے شیر دل کوہی بلوچ سردار کی آنکھیں بھر آئیں)

اب آنسو بالاچ کے نام سے آئے لیکن یاد تو سبھی (بلوچ تحریک کے شہید ) آتے ہیں… (ایک لمحے کی خاموشی)

غلامی سے بری حالت اور کیا ہوسکتی ہے!

اپنے نوجوان پرستاروں کے لیے آپ کیا نصیحت کریں گے؟

“اس جنگ آزادی کو رُکھنے مت دو۔ تسلسل کے ساتھ اس جنگ کو آگے بڑھاؤ۔ لبرٹی (آزادی) تک لڑو۔ وقفہ آیا، تسلسل ٹوٹا تو بے انتہا نقصان ہوگا۔ اس جنگ کو اختتام تک رکنے دو”۔

سیاسی کارکنوں کے نام کوئی پیغام؟

تمام گروپوں کو ایک پارٹی ہونا بہترین بات ہے لیکن اگر ایسا نہیں بھی تو کم از کم پروگرام پر سب متفق رہیں۔ سب لوگ اپنے اپنے ذمہ جو کام لیں وہ پورا کریں۔خود کو نیشنلسٹ کہتے ہیں تو صوبائی خودمختاری کی بات کرنا آپ کے دعوے کے متضاد ہے ۔نیشنلزم کا پہلا تقاضہ آزادی ہے۔ خدا کے لیے جاگیں۔ دشمن کو موقع نہ دیں۔ سروں کو قربان کرتے جائیں لیکن جہدوجہد جاری رکھیں۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s