وقتی مراعات ،حقِ ملکیت کا نعم البدل نہیں کہ ان کی خاطر لہو بہایا جائے: بابا مری


 انٹریو : خادم لہڑی ، جاوید نصیر رند ، حاصل نور دشتی
ذریعہ : روزنامہ توار
اشاعت : 4 مارچ 2006 ء


Nawab Khair Bakhsh Marriبدلتے عالمی حالات کے تناظر میں آپ بلوچ قوم پرستی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

نیشنلزم کے معیار اور تقاضوں کے حوالے سے قومیت و قوم پرستی کی ضرورت کو پورا کرنے کے وسائل ،قومی یکجہتی و قومی شعور کے تحت ممکن الحصول ہوتے ہیں ، قوم پرست اپنے سماجی اقدار ، حالات اور قومی ضرورتوں ارتقاء کی موزونیت کے مطابقت پیدا کرتے ہوہے جب اپنے واک و اختیار کیلئے جہد و جہد اور اپنی سرزمین کی جغرافیائی وحدتوں و قومی تقاضوں کے پیش نظر سائینٹیفک سوچ ،تدبیر اور انقلابی لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں ،تو اس طرح وہ نہ صرف ایک حقیقی عمل پہ گامزن ہوجاتے ہیں بلکہ بدلتی حقیقی عمل پر گامزن ہوجاتے ہیں بلکہ بدلتی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ اپنے سماجی حالات کا بھی گہرائی سے مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہیں اور اسی حقیقی تجزیے کی بناء پر اپنی پالیسی مرتب کر کے قو می جذبہ اُبھارتے ہیں ،اس لیے قوم پرستی نہ صرف ایک سیاسی پروگرام ہے بلکہ ایک نصب العین بھی ہے ، ایک ایسا نصب العین جس کی بنیاد واک و اختیار اورقومی شناخت کے مثبت جذبے پر رکھی جاتی ہے ۔یہ تینوں عناصر جہد آزادی اور واک و اختیار کے حصول کیلئے افراد کو ذہنی طور پر تیار اور آمادہ کرتے ہیں اس لئے حقیقی نیشنلزم کا راستہ انتہائی مشکل اور انتہائی کھٹن ہے اس راستے پر چلنے کیلئے انگاروں سے گزرنا پڑتا ہے ،تب کہیں جاکر سرزمین کا دفاع ممکن ہو تا ہے ۔

اس تناظر میں اگر بلوچ نیشنلزم کا جائزہ لیا جائے تو قوم پرستانہ بلوغت کے فقدان کا شدت سے احساس ہوتا ہے، خصوصا حالت جنگ میں نیشنلزم کے جذبات اور بھی گہرے ہوجاتے ہیں ،بلوچ اس تاریخی کیفیت سے گزر رہا ہے ۔ کیا بلوچ قوم پرستی کے نام لیوا اس کا ادراک کر چکے ہیں ؟ کیا انہوں نے گہرائی اور سنجیدگی سے اس کا تجزیہ کر کے ،اس تجزیے کی بنیاد پہ اپنی پالیسیاں مرتب کی ہیں ؟

بد بختی سے ایسی بات نطر نہیں آتی ،بلوچ سماج میں آج تک کوئی بھی قوم پرست جماعت مفادات و علاقائیت سے بلند تر ہو کر “بلوچ” نا م اختیار نہیں کر سکی ہے ،نہ بلوچ و بلوچ قومیت کے تحت اپنا لائحہ عمل و پروگرام مرتب کرسکی ہے ، تاکہ حقیقی معنوں میں بلوچیت کی ترجمانی کر سکے ۔ کوئی نیشنل کے نام پہ مفادات و قومیت کو گڈ مڈ کرکے نہ جانے کس قوم کی باتیں کر رہا ہے ۔ کوئی بلوچستان اور نیشنل یعنی علاقیت اور قومیت کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے نیشنلزم کے حوالے سے ابہام کا باعث بن رہا ہے ،کوئی بلوچستان نیشنل کے ساتھ عوامی نتھی کرکے نہ جانے کس قوم اور کس عوام کی بات کررہا ہے ،اسی طرح جمہوری اور وطن کی شکل بھی واضح نہیں، یہ وہی پرانی شکل ہے ۔ یہ حالات نیشنلزم کے نہیں ہیں ۔ بلوچ جہدوجہد نیشنلزم کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے نیشنلزم کے نام پہ جو سیاست ہورہی ہے وہ بلوچ وطن کیلئے نہیں ہو رہی ہے اس لئے یہ عملی طور قوم پرست نہیں ہیں ۔اسی طرح بلوچ قوم پرستی کی بھی نیشنلزم کی بنیادوں کی وضاحت ہونی چاہئے کہ اس کو کیا نام دیا جا ئے ۔

نیشنل، نیشنلزم و انسانی تہذیب کی نشو و نما قومی ماحول میں ہوتی ہے ۔جب سماج میں نیشنلزم کی تحریک اٹھتی ہے تو سیاسی و کلچرل ہر دو سطح پہ قومی شعور ابھرتا ہے ۔ اور نشونما پاتا ہے ۔پھر اس سماج میں نیشنلزم درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے قومی سوچ کو وسعت دیتا ہے ۔ تب اس مقام پہ نیشنلزم پختگی کی سطح اور بلوغت کو پہنچتی ہے ۔اس وقت بلوچ نیشنلزم درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے ،قومی سوچ کو وسعت دیتے ہوئے پختگی کی سطح اور بلوغت کو پہنچا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بلوچ نیشنلزم یا تو طفلی کی سطح پہ ہے،یا شاید ایک ایک قدم اٹھا تے ہوئے چلنے کے قابل ہوا ہے،اس کو قومی آزادی و شعور کی صورت دے کر عمل کو پختہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ بلوچ کو آگ اور تلوار کی سختیوں سے گزر کر کندن بننے کیلئے ایک آزمائش سے گزرنا پڑے گا ،تب بلوچ نیشنلزم میں بلوغت آئے گی ،اور بلوچ ایک فریق کی حیثیت سے قبضہ گر کو ہاتھ سے پکڑ کر یہ کہہ سکے گا کہ میری سرزمین سے نکل جاؤ۔

نیشنلزم کے حوالے سے ایک تو یہ نا پختہ سوچ ہے جس کو نیشنلزم کی ابتدائی شکل کا نام دیا جا سکتا ہے ،البتہ اس میں پختگی نہیں اور دوسری جانب وہ گروہ ہے جو بلوچ نیشنلزم کے نام پہ دو کشیوں میں سواری کررہے ہیں ،جو بے ایمان ہیں اور مکر و فریب سے قوم پرستی کو مفادات کی بھینٹ چڑہا رہے ہیں ۔ یہ اتنے خود غرض ہیں کہ ایک جانب دو کشتیاں جلانے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب ربڑ کی کشتیاں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔رائلٹی ،کنکرنٹ لسٹ ، پندرہ پوائنٹ ،اس طرح کے مطالبات کا اظہار……نیشنلزم اور پروفیشلزم میں فرق ہونا چاہے ۔

بلوچ سر زمین پہ جنگ کی ابتداء ہوچکی ہے ۔ اس میں پختگی کے ساتھ جہد و جہدو تیاری انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اگر ہم بلوچ قومی تحریک آزادی پہ ایک نظر ڈالیں ،جوکہ بلوچ واک و اخیتارکے جہد مسلسل کی تاریخ ہے تو نظر آئے گا کہ اب اس تسلسل میں مسلح جہد و جہد میں شامل بلوچ مزاحمت کاروں نے بلوچ نیشنلزم کی ابتداء کرکے جہد و جہد کے رخ کو فکری و عملی طور پر بلوچ حق حاکمیت اور واک و اختیار کی سمت دیکر بلوچ نیشنلزم کی راہ اپنائی ہے ۔ نیشنلزم کی پختگی اور بلوغت کا اس کو بھی نام تو نہیں دیا جاسکتا ، البتہ ان کے ہاں نہ صرف واضع قوم پرستانہ پالیسی و قومی شعور کی ابتدائی شکل نظر آتی ہے ، بلکہ بدلتی حقیقتوں کا ادراک بھی بدلتے عالمی و علاقائی حالات میں ہمیشہ سے اقوام ان چیلنجوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ ان کے مقابل میں عمل کی قوت رکھتے ہیں ،یعنی حقیقی نیشنلزم کی راہ پہ اگر گامزن ہیں تو اپنی بقاء ممکن بنا سکتے ہیں ،ورنہ گمنامی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔گلوبلائزیشن و آزاد منڈی کی آڑ میں وسائل پر اجارہ داریاں قائم کرنے کے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ بلوچ کو امپیریلسٹ کے ایجنٹ ،پنجابی کی چالبازیوں کا بھی سامنا ہے۔ بلوچ قومپرستی کے دعویداروں سے امید تو نہیں البتہ مجھے امید ہے کہ بلوچ نیشنلزم کی جہاں ابتداء ہوچکی ہے ،وہاں اس کو حقیقی نیشنلزم کا رخ دے کر کندن بناتے ہوئے پختگی کی جانب لے جایا جائے تو ان چیلنجوں کا رخ بدل کر بلوچ واک و اختیار کی بنیاد ضرور رکھی جاسکے گی ۔

آپ نے بلوچ قومی تحریک کے رخ کو واک و اختیار کی سمت دینے کی بات کی ،جبکہ بعض بلوچ سیاستدان بلوچستان اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں ؟

(ہنستے ہوئے) تاریخ سے نا واقف لوگ تو پنجابی کو بلوچ کا بڑا بھائی بنانے میں بھی کوئی ججھک محسوس نہیں کرتے ، حالانکہ نہ ہی بلوچ سرزمین اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور نہ ہی بلوچ کا اپنی شناخت و قومیت کو پس پشت ڈال کر امپیریلسٹ ایجنٹ کے خود ساختہ پاکستانی قومیت کے دھارے میں ضم ہونے اور پنجابی کو بلوچ کا بڑا بھائی بنانے کا کوئی منطقی جواز بنتا ہے ، رٹے رٹائے ان الفاظ کو دہرانے والوں کو تاریخ کا ادراک کرنا چاہئے ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے تاریخی حقائق نہیں بدلتے ۔جام یوسف جیسے قبیلے سے تعلق ر کھنے والے لوگ پنجابی کو بلوچ کا بڑا بھائی کہتے ہیں اور بلوچستان و پاکستان لازم و ملزوم کے الفاظ دھراتے ہوہے نہیں تھکتے ۔کیا اس سے بلوچ سرزمین کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت بدل جائے گی ؟ کیا بلوچ تاریخ ، شناخت اور قبضے پہ پردہ پڑھ جائے گا ؟یا زمینی حقائق بدل جائیں گے اور خود ساختہ پاکستانی قومیت ،جس کی کوئی علمی ، سائنسی اور فکری بنیاد نہیں ،اس کے لئے بین الاقوامی منطق کا جواز میسر آئے گا ؟اس غیر منطقی جواز کی نہ تو کوئی تاریخی حیثیت ہے ، نہ ہی سماجی ،ثقافتی اور لسانی اعتبار سے بلوچ کا پنجابی کے ساتھ کوئی رشتہ بنتا ہے ۔اگر بلوچستان و پاکستان لازم و ملزوم کیلئے جواز مسلمانیت ہے ۔ تو ما سوائے اسرائیل کے تمام عرب ممالک مذہبی ، لسانی ، قومی اور ثقافتی اعتبار سے ایک ہونے اور ان کی سرزمین جُڑی ہوئی ہونے کے باوجود مسلمانیت کے ناطے ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم نہیں ۔ایران و افغانستان مسلمان ممالک ہیں ۔ لسانی اعتبار سے ان کے قربت داری کے ساتھ ساتھ ان کی سرحدیں بھی ملی ہوئی ہیں۔وہ ایک دوسرے کیلئے مسلمانیت کے نام پہ لازم و ملزوم نہیں ہیں ۔تو جبری الحاق کے باوجود بلوچ سرمین و پاکستان کس طرح مسلمانیت کے ناطے ہونے لازم و ملزوم و گئے؟

مزاج ،قوموں کی تاریخ کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ان کی نفسیات،خصلت اور سماجی حقیقتوں کا ادراک اسی سے ممکن ہوسکتا ہے۔کیونکہ ارتقائی عمل اور تغیر و تبدیل زمانہ ساتھ کلچر و انسانی سماج میں تبدیلوں کے باوجود مزاج میں تبدیلی نہیں آتی۔پنجابی نے اپنی مزاحمت سے عاری نفسیات اور تابعدارو فرمانبردانہ غلامانہ مزاج کی بناہء پر مہا بھارت سے لیکر پانی پت کی لڑائیوں تک شمال سے جنوب کی جانب آنے والے حملہ آوروں کی ناصرف خدمت گزاری اور دلجوئی کرکے اپنی تاریخ بنائی ہے اور ان کیلئے سامان تعیش کا اہتمام کرکے اپنی سماجی حقیقت کو آشکار کیا ہے بلکہ اپنی سرزمین کو ان حملہ آوروں کو گزرگاہ کے طور پراستعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔بر صغیر اپنی کشش اور مالا مال ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے لوٹ کسھوٹ مچانے والے حملہ آوروں کی نظر وں میں رہا ہے ۔اور پنجابی نے اپنی خصلت کی وجہ سے ہمیشہ ان حملہ آوروں کی تابعداری کرکے مراعات یافتہ غلامی میں اپنی عافیت سمجھی ہے ۔بر صغیر پر انگریز تسلط کے بعد پنجاب نے ان کے لئے سب سے وفادار صوبے کا درجہ اختیار کرلیا۔1857ء کی جنگ نے تو انگریز کیلئے پنجابی کی وفاداری پہ مہر تصدیق ثبت کردی،اور انگریز کو پنجابی کی صورت میں ایسے ایجنٹ میسر آئے جنہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف تناؤ اور مزاحمت کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔انہی ایجنٹوں کی توسط سے1923ء یونینسٹ پارٹی بنی کہ جو بعد میں انگریز ایجنڈے کے مطابق مسلم لیگ میں ضم ہوگئی ۔پنڈی میں اس لئے انگریز چھاؤنی بنی کہ پنجاب سے انگریز کو رضا کار فوجی ایجنٹ ملے ۔جنہوں نے وسیع تر استعماری مفادات کی تکمیل کیلئے نہ صرف بر صغیر پہ انگریز تسلط کو مظبوط بنانے میں کردار ادا کیا ،بلکہ سامراجی ایماء پر مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیاء میں سامراجی اثر رسوخ کو مظبوط تر بنانے میں مدد دی۔یہاں تک کہ اسلام کے چیمپئنوں نے سامراجی حربوں کے تحت مسلمانیت کو بھی نظر انداز کرکے بیت المقدس پر چھڑہائی کرنے سے کوئی ہچکاہٹ محسوس نہیں کی ۔مسلمانیت کے بڑے دعوؤں کے ساتھ سامراج نے پنجابی کو پاکستان بنا کے دیا۔تب بھی پنجاب ،غلام محمد جیسے پیغمبری کے دعویدار کو جنم دیکر پنجابی حقیقت کو سامنے لایا۔انگریز تسلط کے تمام دورانیے میں قومیتوں اور بر صغیر کے عوام اس تسلط کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے۔لیکن پنجابی سامراجی خدمت گزاری میں مگن رہا۔اور آج بھی ذلت و رسوائی سے دوچار ہونے کے باوجود امپیریلسٹ کی تابعداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہا ہے۔انگریز نے ملٹری امپریل ازم کی بنیاد پہ دنیا میں نو آبادیاں قائم کیں،اب امریکہ اقتصادی امپریل ازم کی بنیاد پہ دنیا کو تخت تاراج کر رہا ہے۔اور پنجابی تابعداری غلامی سے حاصل شدہ مراعات میں آسودگی ڈھونڈتے ہوئے آج بھی ان دونوں کی خدمت گزاری کررہا ہے۔جبکہ بلوچ نے اپنی سرزمین کی دفاع کیلئے اپنے مزاج و نفسیات کے مطابق پرتگیزی لٹیروں ،عرب حملہ آوروں ،برطانوی سامراجی تسلط اور پنجابی جبری قبضہ گیری کے خلاف مسلسل مسلح جہد و جہد کرکے بلوچ آزادی کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔

حمل جیئندکا پرتگیزی لٹیروں کے لوٹ کھسوٹ کے خلاف مزاحمت کرنا ،1839ء میں محراب خان اور اس کے ساتھیوں کا برطانوی حملہ آوروں کے خلاف سینہ سپر ہوکر شعور آزادی کو اجاگر کرنا،جبری الحاق کے خلاف آغا عبدالکریم خان کا عَلمِ آزادی بلند کرنا ، نوروز خان کا پیران سالی میں آجوئی کے بیرک کو اٹھا کر قومی تحریک کے جہد مسلسل کو تقویت دینا ،1973ء میں بلوچ سرمچاروں کا اس جہد کے تسلسل کو جاری رکھنا اور آج ایک بار پھر وطن کے دفاع اور آزادی کیلئے جہد و جہد کرنا بلوچ مزاحمتی فکر و مزاج کا عکاس ہے ۔لیکن نادان لوگ اس نمایاں فرق کے باوجود بلوچ و پنجا بی کے کے درمیان رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ تبدیلی زمانہ کے اثرات اور پنجابی حربوں سے بلوچ قومی مزاج میں تبدیلی آئے گی اور بلو چ خود ساختہ پاکستانی قومیت کے دھارے میں ضم ہوگا تو یہ ان کی خام خیالی ہے ۔کیونکہ تبدیلی زمانہ ہمیشہ قومی ثقافتی دائرے میں اپنا سفر مکمل کرتا ہے نہ کہ بیرونی مداخلت اور جبر و تسلط کے دائرے میں ۔

اسی طرح بلوچ سرزمین اور اس پر بسنے والی بلوچ قوم کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔مہر گڑ اور نوشہرو کی نوہزار سالہ بلوچ تہذیب نے ایشیا میں ارتقائی عمل کے ساتھ تہذیبی شہور و آگہی کی روشنی پھیلائی اور گزرتی وقت کی اونچ نیچ کے باوجود اپنے واک و اختیار اور سرزمین کیلئے ان پر جبر و بربریت کے پہاڑ توڑنے کے باوجود بلوچ کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔پرتگیزی لٹیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا دفاع کیا،انگریز تسلط ایران،افغانستان اور انگریز کے زیر تسلط انتظامی و برٹش بلوچ میں تقسیم کردیا گیا،لیکن پھر بھی بلوچ اپنے واک و اختیار کے حصول کی جہد و جہد سے دستبردار نہیں ہوا۔اور اب جبری الحاق کے خلاف جہد کے ساتھ ساتھ ان وحدتوں کو دوبارہ جوڑنے کیلئے بلوچ جہد و جہد جاری ہے۔اس تاریخی پس منظر کے مقابلے میں پاکستانی 58(یہ انٹریو 2004میں لیا گیا تھا)سا لہ تاریخ کی وقعت یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کھچڑی ہے جو انگریز نے جاتے جاتے ایشیا میں اپنے سامراجی مفادات کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے بنائی ۔ سامراجی بالادستی کیلئے یورپی اقوام کی آپس کی چپقلشوں اور جنگوں نے پہلی جنگ عظیم سے دنیا کو دوچار کردیا۔اس کے بعد 1917ء میں انقلاب روس برپا ہوا ، اسی طرح بلادستی کیلئے تگ و دو نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا،اس جنگ نے ما سوائے امریکہ کے تمام سامراجی ممالک و اقوام کو معاشی دیوالیہ پن کا شکار کردیا۔تو دنیا میں تبدیلیوں کا امکان ناگزیر ہوگیا ۔تب برطانوی سامراج نے ان تمام حالات و تبدیلیوں کے پیش نظر نئے ابھرتے ہوئے امریکی سامراجی کے سایہ عافیت میں اپنے مفادات اور سامراجی بالادستی کی چھت تلے برصغیر میں موجود مذہبی منافرت ،جو مسلمان حملہ آوروں کی بربریت کا تاریخی تسلسل تھا ،کی بنیاد پر اپنے تابع فرمان پنجابی کیلئے اس لئے پاکستان بنا کے دیا کہ اس خطے میں بالادستی کا تسلسل قائم رئے ۔اس لئے سامراج کا اس کاسہ لیس چوکیدار کی 58ء سالہ تاریخ نے اس کے اس کردار سے ہر لمحہ پردہ اٹھایا ہے ۔اس تاریخی حیثیت و تناظر کے باوجود اگر کوئی بلوچستان و پاکستان لازم و ملزوم کا رٹھا لگاتا ہے تو اس سے بڑا مفاد پرست کوئی اور نہیں ہوگا۔اس لئے اب بلوچ کو اس دو نمبری کاغذی شناخت کے دھوکے میں مزید نہیں رہناچاہئے ۔یہ انسانی اور اخلاقی فرض ہے کہ ساری زندگی دھوکے میں رہنے کے بجائے اس سے علیحدگی اختیار کی جائے ۔

حال میں جنرل پرویز مشرف نے مذاکرات کا جو عندیا دیا ہے ۔اگر اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کیا گیا تو آپ کا کیا موقف ہوگا؟

مشرف نے جس انداز میں مذاکرات کو بلوچ قومی تحریک آزادی کے خاتمے اور بلوچ کا ہتھیار ڈالنے سے مشروط کرکے نہ صرف بلوچ قومی غیرت کو للکارا ہے ،بلکہ ہوا میں ایک تیر چلانے کی کوشش کی ہے ۔اس طرح سے تو مشرف نے “مذاکرات” کے لفظ کا تقدس بھی مجروح کردیا ہے ۔بلوچ مر تو سکتا ہے لیکن ہتھیارنہیں ڈال سکتا۔ ہتھیار بلوچ کا زیور اور جسم کا حصہ ہے ۔ کوئی اپنے جسم کے حصوں کو کاٹ کر پھینک نہیں سکتا ۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بقول آئی جی چوہدری یعقوب کے مجھے مصلحتا اس لیے گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے کہ مجھ سے مذاکرات کا سوچا جارہا ہے ۔کوئی زی شعور شخص مذاکرات سے انکار نہیں کرسکتا ۔لیکن مراعات و ملازمتیں قومی واک و اختیار کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔اس لئے مذاکرات قومی واک و اختیار کے تحت ہونے چاہئیں ہم دلال بن کر قومی حقوق و آزادی کو چند ملازمتوں اور مراعات کی بھینٹ نہیں چڑھاسکتے۔اس لئے مذاکرات کیلئے نہ تو ہمارے پندرہ بیس نقاط ہیں ۔نہ ہی لمبا چھوڑا ایجنڈاہمارا ایجنڈا صرف ایک ہے ،کہ پنجابی بلوچستان سے نکل جائیں اور بلوچ کی آزاد تا ریخی حیثیت بحال ہو ۔

نو آبادیاتی دور میں بھی تو ملازمتیں اکثریت سے ہندوستانیوں کے پاس تھیں ۔جس طرح آج بلوچستان میں مراعات کے دلدادہ دلال کالونیل ایجنٹ کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں ،اس دور میں بھی سودابازوں ،ضمیر فروش سازشیوں اور منافقدلالوں کی کوئی کمی نہیں تھی ۔لیکں کیا اس وقت ہندوستانی آزاد تھے ؟کیا وہ اپنے اختیارات کے مالک تھے؟اس لئے اس سے قبل ہم طفلگی میں قرآن کی میڑھ پہ جو دھوکہ کھا گئے ۔اب ایسا نہیں ہوگا ،نہ ہی فورس کرکے ہمیں مذاکرات کی میز پہ بٹھایا جا جاسکتا ہے۔جس طرح بنگالیوں نے مرض کی صحیح تشخص کرکے دو قومی نظریے کا پھول کھول دیا ۔اسی طرح بلوچ قوم پرستوں کو بھی مرض کی صحیح تشخیص کرکے اپنی حیثیت منوالینی چاہئے اور اپنی جہد و جہد کی رُخ کو متعین کرنا چاہئے ۔

بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے حکومتی موقف ہے کہ فوجی آپریشن نہیں ہورہا ہے ،بلکہ نیم فوجی دستے قومی تنصیبات کی حفاظت کیلئے تعینات ہیں۔ آئے دن جن پر حملہ کیا جاتا ہے ۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

میڈیا کے زریعے تو بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ بلوچ سرزمین پر موجود یہ قومی تنصیبات ہیں ۔ان حساس و قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں اور پاکستان دشمنوں کو کرش کریں گے ۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پنجابی کس حوالے سے بلوچ وسائل و اثاثوں پہ حق جتاتا ہے ؟اور کس قوم اور اس کے تنصیبات کی بات کررہا ہے ؟بلوچ سرزمین پر موجود تنصیبات و وسائل پہ حق ملکیت بلوچ کا ہے ،نہ کہ پنجابی کا۔پنجابی جو کہ خود امپیریل کا دست نگر ہے ،وہ قبضہ گیری کے زریعے ہماری زمین ،گھر، مال و مڈی اور وسائل لوٹ کر لے جائے ،بلوچ کی تنصیبات پر اپنا حق جتائے تو کیا ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے خاموش بیٹھ جائیں گے؟اور کرش کرنے کی خوف سے اپنے اثاثوں سے دستبردار ہوجائیں ؟یہ نا ممکن ہے ۔بلوچ سرزمین پر موجود تمام تنصیبات بلوچ کی قومی تنصیبات ہیں ،پنجابی کی نہیں ۔سورج کے سامنے انگلی لہرانے سے اندھیرا چھا جاتا ہے،نہ قبضہ کرنے کے بعد فورس کرکے کسی کی ملکیت کو چھینا جاسکتا ہے۔پنجابی کا بلوچ سے رشتہ کیا ہے کہ وہ بلوچ کی ملکیت پہ حق جتائے اور کس قومیت کی ناطے سے وہ یہ حق جتا رہا ہے؟اگر وہ پاکستانی قومیت کے حوالے سے بات کررہا ہے تو پاکستانی قومیت کی تو کوئی فکری و نظریاتی بنیاد ہی نہیں ،جبکہ بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت واضح ہے ۔اس لئے اب پنجابی کو یہ خوف لاحق ہے کہ بلوچ ،پنجابی کے ساتھ اپنے رشتے کی حقیقت سے واقف ہوچکا ہے۔کہ یہ کوئی اخلاقی یا تاریخی رشتہ نہیں ہے۔بلکہ بلوچ کے ساتھ دھوکہ ہورہا ہے ،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ 58سالوں سے بلوچ جس زنا باالجبر کا شکار ہے ۔اس کے بدلے بلوچ موت کو بہتر سمجھتے ہیں۔وہ سمجھ چکے ہیں کہ فکر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔اس کے لئے عمل کی بھی ضرورتہے ۔مذہب بھی یہی درس دیتا ہے کہ جبریت کو توڑ دیا جائے ،انسانی اور اخلاقی فرض بھی یہی بنتا ہے ،کہ ظلم کے خلاف فکری اظہار کے ساتھ عملی کردار ادا کیا جائے ۔کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے ۔اس لئے اب پنجابی ،قومی تنصیبات جیسے الفاظ سے سیلاب کی راہ میں بندھ باندھنے کی ناکام کوشیں کررہا ہے۔لیکن اس طرح بلوچیت کی نفی ناممکن ہے۔تاریخی حقائق اس طرح سے مسخ نہیں کیے جاسکتے۔

بلوچستان میں ترقیاتی کام اور میگا پروجیکٹس کے حوالے سے آپ کے خدشات کیا ہیں؟

خدشات نہیں،بلکہ ہمیں تو ایسی ترقی ہی نہیں چاہئے جو بیرونی مداخلت کے زریعے بلوچ سرزمین پر قبضے کو مزید مضبوط بنانے کا سبب بنے ۔کیا تاریخ ایسی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے کہ قابض اقوام نے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر یا ترس کھا کر مفتوحہ قوم کی بلائی کیلئے اور ان کی ترقی کیلئے اپنی توانائیا صرف کی ہوں؟انگریز کیلئے ہندوستان سونے کی چڑیا تھا ۔لیکن انگریز کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں اور پروپیگنڈہ نے ہندوستانی سماج کو زوال پزیر بناکر پستی میں دھکیل دیا ۔پنجابی کا یہ نام نہاد ترقیاتی پروگرام بھی بیرونی جارحانہ مداخلت کا نتیجہ ہے جو بلوچ کے سر تھونپنے سے اس کے سماجی رشتوں اور اجتماعی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے ساتھ پنجابی قبضہ گیری کو مذید تقویت دے گا۔حقیقی ترقی کا عمل تب ممکن ہے ،کہ جب بلوچ کو خود سے آزادی ،خود مختاری اور خوداعتمادی کے داتھ داخلی طور پر اس کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع میسر آئے گا ۔اس طرح وہ ایک بہتر دنیا تخلیق کرسکتا ہے او ر بلوچ سماج اور ارتقائی عمل کے تحت آنے والی تبدیلی ،جس میں بلوچ کی تہذیبی و ثقافتی روح موجود رہتی اس کو روک دیا گیا اور بلوچ بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ علمی و ثقافتی پستی کا بھی شکار ہو ا ۔اب یہ نام نہاد ترقیاتی پروپیگنڈہ اس پہ مزید غلاف چڑھا دینے کے مترادف ہوگا۔

لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ سردار و قبائلی نظام اس ترقیاتی عمل کے سامنے رکاوٹ ہے اور سرداروں نے اپنی پرائیویٹ آرمی کے ذریعے بلوچستان میں موجودہ صورتحال پیدا کردی ہے ۔خصوصا تین سرداروں ، آپ کا ، سردار عطااللہ خان مینگل اور نواب اکبر خان بگٹی کا نام لیا جاتا ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟

یہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ ہے ،کسی سردار کی پرائیویٹ آرمی کا کرشمہ نہیں کہ وہ اس نام نہاد ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے۔یہ ان پاکستانی حکمرانوں کا پروپیگنڈہ ہے ۔جو خود تہذیب سے نا آشنا ہونے کے با وجود بلوچ کو مہذب بننے کا درس دیتے ہیں۔وہ اس لئے اپنے کاسہ لیس ،چاپلوس ہمنواؤں اور میڈیا کے زریعے زور و شور سے اس کی تشہیر کر رہے ہیں ۔اس کے پس پشت وہ نفسیاتی خوف کار فرما ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کردیں ہیں ۔کیونکہ بلوچ نے آزاد حیثیت سے قلات اسٹیٹ کے دونوں پارلیمانی ہاؤسز یعنی دارالامراء اور دارالعلوم کی سطح پر پنجابی حاکمیت سے انکار کرتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا لیکن جبری طور پر بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا گیا ۔بلوچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے آج تک پنجابی قبضہ گیری کو قبول نہیں کیا ہے ۔آج بھی وہ اپنی تاریخی آزاد حیثیت کے خواہاں ہیں ۔پنجابی کو خوف ہے کہ یہ جنگ تحریک آزادی کا مکمل رُخ اختیار نہ کرلے ۔اس لئے اسے چھوٹا کرکے قبائلیت اور تین سرداروں کی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے ۔یہ تین سردار اتنے بڑے ڑکٹیٹر ہیں کہ پوری بلوچ قوم پہ اپنا فیصلہ مسلط کر سکیں؟ بلکہ یہ تینوں سردار تو بلوچ قومی تحریک کے صرف سپاہی ہیں۔جس نے پنجابی کو خوف کے نفسیاتی عارضہ میں مبتلا کردیا ہے ۔اس نفسیاتی خوف کا نظارہ اس وقت بالکل کھل کر سامنے آگیا جب کوئٹہ میں نیو کاہان مری کیمپ میں غریب نہتے بلوچوں پر حملہ آور ہوکر بچوں،عورتوں اور بوڑھوں پر ہاتھ اٹھا کر اپنی بزدلانہ دھونس جماتے ہوئے وہاں پاکستانی جھنڈا گاڑنے اور بلوچ کو فتح کرنے کے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے گئے جس سے ثابت ہوگیا کہ بلوچ سرزمین پر ہر چند کہ پنجابی قبضہ ہے لیکن بلوچ نے آج تک پنجابی بلادستی کو قبول نہیں کیا ہے ۔اس لئے بلوچ کو فتح کرنے کی خاطر آج بھی پنجابی تگ و دو جاری ہے ۔بلوچستان میں پسماندگی کے اسباب کا ذمہ دار قبائلی و سرداری نظام کو ٹھہراتے ہوئے تین سرداروں کا نا لیا جاتا ہے ،کہ انہوں نے بلوچستان کو یرغمال بنایا ہے ،یہی بات خود تضادات کو ظاہر کرتی ہے ۔ہمارا قبائلی نظام پاکستانی جمہوریت سے بدر جہاں بہتر ہے ۔لیکن بلوچ سرداروں کی اکثریت بلوچ روایات کو پس پشت ڈال کر مفادات و مراعات کی خاطر پنجابی جھولے میں جھول رہے ہیں ۔ان تین سرداروں نے پنجابی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلوچ واک و اختیار کی بات کی ہے اوربلوچ حق حاکمیت کیلئے اس کے ناک میں دم کر دیا ہے ۔ اس لئے موجودہ جنگ بھی پنجابی قبضہ گیری کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی جنگ ہے ۔ پاکستانی حکمران ہر چند اس کے سامنے تین سردار ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی لفاظی کرکے بند باندھنے اور اس جنگ کو قبائلی رنگ دے کر چند قبائل تک محدود کرنے کی کوشش کریں لیکن وہ اب اس بلوچ سیلاب کو نہیں روک سکتے ،نہ ہی حقیقت کو مصنوعی لفاظی سے چھپا سکتے ہیں ، اور دوسری بات یہ کہ ترقی مخالف تین بلوچ سردار وں کا ورد کرتے ہوئے مشرف اور اس کے حواری اٹھتے بیٹھتے ان سے سختی سے نمٹنے اور انہیں کچل دیینے کی دھمکیوں کے ساتھ بلوچ مسئلے کو مہذب اور جمہوری طریقے سے پارلیمنٹ کی سطح پر حل کرنے کی بات بار بار دھراتے ہیں ۔کیا بلوچوں کومہذب طریقے اور جمہوری انداز اپنانے کادرس دینے والے مشرف اور اس کے حواری یہ بتاسکتے ہیں کہ وہ خودکس مہذب طریقے اور راستے سے آئے ہیں ؟یا یہ وضاحت کرسکتے ہیں کہ کیا “کچل دینگے” اور ” کرش کرینگے” جیسے الفاظ ادا کرنا اور اس طرح کا لہجہ اختیار کرنا مہذب اور جمہوری انداز ہے ؟ بلوچ کو تہذیب و جمہوریت کا سبق دینے والوں کے پاکستان میں مہذب اور جمہوری انداز ہے ؟ بلوچ کو تہذیب و جمہوریت کا سبق دینے والوں کے پاکستان میں مہذب سو سائٹی کا وجود ہی نہیں ،نہ جمہوری نظام ہے اور نہ ہی قانون و اخلاقی قدریں ہیں ۔چنگیز خان ، ہلاکو خان اور دیگر جابروں نے بھی اسی جاہلانہ پن کا اظہار کیا تھا ۔کتنے عرصے تک ان کی جبریت قائم رہی ؟جہاں ہر چند سال بعد مارشل لا ء لگتا ہو، جہاں نام نہاد نام جمہوریت بندوق کی نوک پر قائم کی جاتی ہو ،وہ کس منہ سے یہ لوگ بلوچ کو مہذب اور جمہوری انداز اختیار کرکے بلوچ مسئلے کو نام نہاد پاکستانی پارلیمنٹ میں حل کرنے کی بات کرتے ہیں ۔جو خود جمہوریت اور مہذب پن سے نا آشنا ہیں ۔وہ بلوچ کو جمہوریت اور تہذیب کا درس دیتے ہیں ۔پنجابی جو کہ غلامانہ طرز چاپلوسی سے مراعات کے حصول کا ہنر جانتا ہے ،اس کی اسمبلیاں اور جمہوریت امپیریلسٹ کے تبع فرمان ہیں ۔اب اس ڈھونگ کی حقیقت سے بلوچ بخوبی واقف ہوچکے ہیں ۔1970ء کی دہائی تو بلوچ اور پوری دنیا نے پاکستانی جمہوریت کا نظارہ دیکھا ۔جب سندھ اور پنجاب کی چند سیٹوں کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی اکثریت کو نظر انداز کیا گیا ۔کیا بنگالی مسلمانیت میں پنجابی سے کمتر تھے ؟یا وہ غیر مہذب اور جمہوریت سے ناواقف تھے ؟اس کے بعد بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)کی حکومت کو بمشکل نو ماہ بردا شت کیا گیا ۔پنجابی نہ صرف خود غیر مہذب ہے غلامانہ ذہنیت کا مالک اور غیر جمہوری ہے ،بلکہ وہ نیشنلزم اور مسلمانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔امپیریلسٹ کی تابعداری کرنا،سامراجی حربوں کو تقویت دینے کیلئے بیت المقدس پر حملہ کرنا ،غلام محمد اور اس کے پیروکار جیسے اسلام دشمن پیدا کرنا اور مذہبی قومیت کی آڑ میں دھوکہ دھی اور فریب کا بازار گرم کرنا ؛پنجاب کے اسلامی و مسلمانیت کے ان دعویداروں نے آغا عبدالکریم خان اور نواب نوروز خان کو قرآن کے میڑھ پہ پہاڑوں سے اتار ا اور قرآن کی حلف پہ قائم نہ رہتے ہوئے ان سے دھوکہ کرکے اپنی مسلمانیت کا پھول کھول دیا ۔اس لئے اس غیر مہذب ،غیر جمہوری اور غیر اسلامی پاکستانیت سے بلوچ کا علیحدگی اختیار کرنا اخلاقی فرض ہے۔

صدر پرویز مشرف جب کوہلو آئے تو ترقیاتی پیکج کا بھی اعلان کیا ۔اس موقع پر اس پہ راکٹ فائر کئے گئے ۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مہمان پر حملہ بلوچ روایات کا منافی ہے ۔آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟

مشرف مہمان کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ اپنی شہنشاہیت اور برتری جتانے کی غرض سے کوہلو آیا تھا ۔بلوچ قوم کو کو یہ احساس دلانے آیا تھا کہ وہ پنجابی کی مفتوحہ قوم ہے اور انہیں پیکج کے نام پر بیک دینے آیا ہوں ۔جبکہ بلوچ نے قوم آج تک اس قبضہ گیری کو قبول نہیں کیا ہے ۔ کیا وہ مشرف کا اپنی ڈکٹیٹر شپ اور فوجی تہذیب کے بل بوتے پر دبدبہ اور دھونس جمانے کیلئے کوہلو آنے پر ،اس پر پھول نچھاور کرتے ؟ ہم گداگر نہیں کہ مشرف ہمیں پانچ ارب کی بھیک کالالچ دینے آئے اور یہ احساس دلانے کی کوشش کرے کہ وہ شہنشاہ ہے اور بلوچ اس کی رعیت ہیں ۔بلوچ کو بھیک نہیں چاہئے ،اس کی سرزمیں معدنی خزانوں سے بھری پڑی ہے ۔جس کا مالک خود بلوچ ہے ،نہ کہ پنجابی ۔مشرف کون ہوتا ہے بلوچ کو نام نہاد ترقیاتی پیکج کے نام پہ فقیری کا احساس دلانے والا ۔

اس کے ساتھ یہ نفسیاتی حربہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ بلوچستان چھوٹا صوبہ ہے اور پنجاب بڑا بھائی ۔تاکہ مقبوضہ قوم کے افراد کے ذہنوں کو اس طرح مفلوج کرکے انہیں احساس کمتری میں مبتلاکرکے آسانی سے ان پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جاسکے ۔اب بلوچ ان چالبازیوں کا ادراک رکھتا ہے ۔ بلوچ اپنی روایات کی پاسداری کرنا بھی خوب جانتا ہے ۔اسے اچھی طرح علم ہے کہ کون مہمان ہے، کون مکرو فریب سے انہیں دھوکہ دینے آیا ہے ۔بلوچ کو اپنے علاقے میں ایسے مہمانوں کی آمد گوارہ نہیں جو مکر و فریب کی علامت ہوں،نہ ہی ہمیں بھیک کے ایسے پانچ ارب چاہئیں جس کے بدلے سامراجی غلام ہم سے ہماری سرزمین کا سودا کر لے ۔بلوچ اپنی سرزمین اور وسائل کا خودمالک ہے اور انہیں سنبھالنے کی بھی اہلیت بھی رکھتا ہے ۔اب مزید گالی ناقابلِ برداشت ہے کہ اپنے مفادات کے تحت پنجابی انویسٹ منٹ کے نام پہ بلوچ کو بھیک مانگنے والا بنا دے۔روڑ،ملازمتیں اور وقتی مراعات ،حق ملکیت کا نعم البدل نہیں ان کی خاطر لہو بہا یاجائے،نہ ہی صوبائی خودمختاری کیلئے اتنے بڑی قربانی دیتا ہے بلکہ بندوق سے بندوق کا جواب آزادی کیلئے دیاجا تا ہے ۔ہم آخری سانس اور آخری حد تک جہد و جہد جاری رکھیں گے ۔جب تک ایک بھی بلوچ بھی زندہ ہے ،ہم پنجابی سے اس لڑائی کو بند کرنے کا مطالبہ نہیں کریں گے ۔جب سویت یونین ٹوٹ سکتا ہے اور قومیتوں کو آزادی مل سکتی ہے ،جب بنگلہ دیش آزادی حاصل کرکے قبضہ گیری سے جان چھڑ ا سکتا ہے تو بلوچ کیوں کر اپنے واک و اختیار کا مالک نہیں بن سکتا ہے۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s